آج تک خود پہ رو رہی ہے فرات

آج تک خود پہ رو رہی ہے فرات
پانی پانی سی ہو رہی ہے فرات


ایک بچہ زبان خشک اور تیر
ایسے منظر کو ڈھو رہی ہے فرات


خشک ہوتی تو صبر آ جاتا
پانی ہونے پہ رو رہی ہے فرات


کیوں نہ میں بڑھ گئی کناروں سے
اب پشیمان ہو رہی ہے فرات


چند خیمے عطش عطش کی صدا
کتنی بے چین ہو رہی ہے فرات


داغ شاربؔ مٹے نہیں اب تک
کب سے دامن کو دھو رہی ہے فرات