آنکھوں میں خواب روز نئی رہ گزر کا ہے

آنکھوں میں خواب روز نئی رہ گزر کا ہے
منزل کے اور آگے ارادہ سفر کا ہے


دل آیا بھی تو اپنا اسی بے نیاز پر
یہ بھی قصور اپنے ہی ذوق نظر کا ہے


ہوش و خرد گنوا دیا دیوانے ہو گئے
سارا فسوں یہ آپ کی چشم و نظر کا ہے


سلجھی کوئی گرہ تو بہت ہم الجھ گئے
قصہ تمام گیسوئے تا بہ کمر کا ہے


یہ روز روز کوچۂ جاناں کی گردشیں
خورشیدؔ ہم رکاب کسی در بدر کا ہے