بے جا سی حسرتوں نے تماشا کیا مجھے
بے جا سی حسرتوں نے تماشا کیا مجھے
خود میری وحشتوں نے ہی رسوا کیا مجھے
جب دسترس میں تھا تو نہ کی لطف کی نگاہ
پھر ساری عمر لوگوں سے پوچھا کیا مجھے
اس دور میں دروغ نے پایا ہے کیا فروغ
گو حق پہ تھا میں جھوٹوں نے جھوٹا کیا مجھے
اکثر جو حکمراں ہیں وہ موذی سرشت ہیں
مالک یہ کیسے دور میں پیدا کیا مجھے
حالات نے وجود مرا مسخ کر دیا
وہ میرے ساتھ ہو کے بھی ڈھونڈا کیا مجھے
اب کچھ بھی میری ذات میں ذاتی نہیں رہا
کچھ یوں نظام نو نے برہنا کیا مجھے
شاربؔ عجب سکون ہے جب سے سنا ہے یہ
عارض پہ دھر کے ہاتھ وہ سوچا کیا مجھے