کہاں کا سودا جنون کیسا کہ طاق دل میں ملال رکھتے

کہاں کا سودا جنون کیسا کہ طاق دل میں ملال رکھتے
اگر وہ احوال دل سناتے تو ہم بھی اپنا خیال رکھتے


کبھی وہ آتے بہار آتی خزاں رسیدہ صحن میں اپنے
ہر اک قدم پر بچھاتے پلکیں دل و جگر بھی نکال رکھتے


وہ عہد ماضی کے لوح پرور اور ان کے دل میں جہاں کا غم تھا
تمہاری الفت کے بعد ہم کیوں زمانے بھر کا وبال رکھتے


عدو کے لشکر کو مات دے کر ہم اپنی بستی میں آ گئے تھے
اگر زمانہ شناس ہوتے تو اپنے ہاتھوں میں ڈھال رکھتے


کبھی تو خورشیدؔ شب میں آتا ہماری راہوں کو جگمگاتا
جو پیر کامل کا فیض ہوتا تو ہم بھی ایسا کمال رکھتے