وہ ہم خیال نہیں پھر بھی ساتھ چلتا ہے

وہ ہم خیال نہیں پھر بھی ساتھ چلتا ہے
یہی تضاد تو جیون میں رنگ بھرتا ہے


میں اس کی رائے سے کچھ اتنا مطمئن بھی نہیں
مہر بہ لب ہوں کہ سکہ اسی کا چلتا ہے


میں اک چراغ تھا طوفاں سے دوستی کر لی
خرد نہ سمجھے اسے پر جنوں سمجھتا ہے


یزید مورچہ جیتا تھا جنگ ہارا تھا
یہ سچ رگوں میں مرے انقلاب بھرتا ہے


اس اک غریب سے اتنے سوال مت پوچھو
جو حال زار بھی کہتے ہوئے ہچکتا ہے


وہ اشتہار میں سب کچھ ہی پا گیا لیکن
غریب شہر تو تل تل کو اب بھی مرتا ہے


یقیں ہے اس کو صلہ خوب پاؤں گا اب تو
وہ جاں بھی لیتا ہے اور مشتہر بھی کرتا ہے


زمیں کے ناز اٹھائے گا کون اے شاربؔ
کسان اب تو نراشا کے بن میں رہتا ہے