شاعری

وقت کی آنکھ میں صدیوں کی تھکن ہے، میں ہوں

وقت کی آنکھ میں صدیوں کی تھکن ہے، میں ہوں دھول ہوتے ہوئے رستوں کا بدن ہے، میں ہوں پھر ترا شہر ابھر آیا ہے میرے ہر سو پھر وہی لوگ، وہی طرز سخن ہے، میں ہوں ایک تاریک ستارہ کا سفر ہے درپیش اور امید کی اک تازہ کرن ہے، میں ہوں ایک جنگل ہے، گھنے پیڑ ہیں، اک نہر ہے اور اک شکاری ہے، کوئی ...

مزید پڑھیے

کچھ دیر تو دنیا مرے پہلو میں کھڑی تھی

کچھ دیر تو دنیا مرے پہلو میں کھڑی تھی پھر تیر بنی اور کلیجے میں گڑی تھی آنکھوں کی فصیلوں سے لہو پھوٹ رہا تھا خوابوں کے جزیرے میں کوئی لاش پڑی تھی سب رنگ نکل آئے تھے تصویر سے باہر تصویر وہی جو مرے چہرے پہ جڑی تھی میں چاند ہتھیلی پہ لیے جھوم رہا تھا اور ٹوٹتے تاروں کی ہر اک سمت ...

مزید پڑھیے

وہ دکھ نصیب ہوئے خود کفیل ہونے میں

وہ دکھ نصیب ہوئے خود کفیل ہونے میں کہ عمر کٹ گئی خود کی دلیل ہونے میں مسافروں کے قدم ڈگمگائے جاتے تھے عجب نشہ تھا سفر کے طویل ہونے میں وہ ایک سنگ جو رستے میں ایستادہ تھا اسے زمانے لگے سنگ میل ہونے میں منافقین سے خطرہ کبھی غنیم کا خوف قیامتیں ہیں بہت بے فصیل ہونے میں عزیز ہونے ...

مزید پڑھیے

اس بار ہواؤں نے جو بیداد گری کی

اس بار ہواؤں نے جو بیداد گری کی پھر میرے چراغوں نے بھی شوریدہ سری کی میں نے کسی ہنستے ہوئے لمحے کی طلب میں اس شہر دل آویز میں بس دربدری کی کچھ اور وسیلہ مرے اظہار کو کم تھا سو میں نے مری جان سدا شعر گری کی اے عہد رواں میں ترا مہمان ہوا تھا لیکن ترے لوگوں نے بڑی بے خبری ...

مزید پڑھیے

میں نیند کے ایوان میں حیران تھا کل شب

میں نیند کے ایوان میں حیران تھا کل شب اک خواب مری آنکھ کا مہمان تھا کل شب کس غم میں بکھرتے رہے آکاش پہ تارے کیوں چاند پریشان پریشان تھا کل شب ہر آن کوئی یاد چمکتی رہے دل میں ہر لمحہ کوئی شور تھا، طوفان تھا کل شب کیا جانیے کیا اس کی ندامت کا سبب تھا کیا جانیے کیوں میں بھی پشیمان ...

مزید پڑھیے

شکر ہے اب کے بیکلی کم ہے

شکر ہے اب کے بیکلی کم ہے آج کل ان سے دوستی کم ہے سانس لینے میں دم نکلتا ہے ان ہواؤں میں کچھ نمی کم ہے تم اسے زخم دل دکھاتے ہو وہ جو قاتل ہے آدمی کم ہے تاب بھر اس میں ہے جلانے کی اپنے سورج میں روشنی کم ہے ہم تو دنیا کو کیا سے کیا کر دیں کیا کریں اپنی زندگی کم ہے لگ رہا ہے کہ وہ نہ ...

مزید پڑھیے

عجیب تشنگی ہر سو مرے بدن میں ہے

عجیب تشنگی ہر سو مرے بدن میں ہے کسی سراب کا آہو مرے بدن میں ہے کسی سے عشق سا ہونے کو ہے یہ تم ہو کیا نئے گلاب کی خوشبو مرے بدن میں ہے کبھی کسی سے بھی کھل کر میں مل نہیں سکتا مجھے خبر ہے کہ بس تو مرے بدن میں ہے محل کو چھوڑ کے آ جاتی ہیں زلیخائیں نہ جانے کون سا جادو مرے بدن میں ...

مزید پڑھیے

ذرا سی ان بن میں روٹھ کر وہ جو دشمنوں میں ٹہل رہے ہیں

ذرا سی ان بن میں روٹھ کر وہ جو دشمنوں میں ٹہل رہے ہیں ابھی جو نوحہ بنے ہوئے ہیں کبھی ہماری غزل رہے ہیں بنا بتائے چلا گیا تھا بتا کے ملنے جو آ گیا ہوں تو روٹھ کر وہ گئے ہیں گھر میں خوشی سے چھپ کر اچھل رہے ہیں مرض ہوا ہے محبتوں کا یہ رات کیسے کٹے گی جانے ہماری نیندیں بھی اڑ چکی ہیں ...

مزید پڑھیے

اک غزل تو مرے ہاتھوں سے مثالی ہو جائے

اک غزل تو مرے ہاتھوں سے مثالی ہو جائے کاش کے تو مرا محبوب خیالی ہو جائے دیکھ لے تو مری جانب جو اٹھا کر نظریں چشم پر نم جو تری ہے وہ غزالی ہو جائے چاند سے رخ پہ جو پھرتے ہو لگا کر گاگل عید کر لے نہ کوئی کچھ کی دیوالی ہو جائے سامنے اس کو میں رکھتا ہوں غزل کہتا ہوں جب اس غزل گوئی کی ...

مزید پڑھیے

شکاری ہیں بڑے شاطر بہانہ لے کے چلتے ہیں

شکاری ہیں بڑے شاطر بہانہ لے کے چلتے ہیں وہ ترچھی نظروں میں سیدھا نشانہ لے کے چلتے ہیں ہماری میزبانی سے نہ گھبرایا کرو لوگو ہم اپنے ساتھ اپنا آب و دانہ لے کے چلتے ہیں ذرا پہچان کر بتلاؤ تو یہ کون ہیں کیا ہیں کہ بادل جن کے سر پر شامیانہ لے کے چلتے ہیں کہ ہم اہل ادب ہم کیا کریں گے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4721 سے 5858