عجیب تشنگی ہر سو مرے بدن میں ہے

عجیب تشنگی ہر سو مرے بدن میں ہے
کسی سراب کا آہو مرے بدن میں ہے


کسی سے عشق سا ہونے کو ہے یہ تم ہو کیا
نئے گلاب کی خوشبو مرے بدن میں ہے


کبھی کسی سے بھی کھل کر میں مل نہیں سکتا
مجھے خبر ہے کہ بس تو مرے بدن میں ہے


محل کو چھوڑ کے آ جاتی ہیں زلیخائیں
نہ جانے کون سا جادو مرے بدن میں ہے


صداقتیں کھنک اٹھتی ہیں بات جب نکلے
وہی زبان وہ تالو مرے بدن میں ہے


مرے قریب جو آؤ تو دل بڑا رکھنا
بری بھلی گھری ہر خو میرے بدن میں ہے


سیاستوں نے گو شیطاں ہی کر دیا مجھ کو
نہیں میں بھولتا سادھو مرے بدن میں ہے


مرے مقابلے حوروں کا قافلہ اظہرؔ
بلا سے ضبط ہے قابو میرے بدن میں ہے