شاعری

سنجیو صراف کے لیے ایک نظم

عزم شاہینی لیے اک نوجواں سنجیو ہے اب مری اردو کا سچا پاسباں سنجیو ہے ریختہ کے ہو تمہیں استاد غالب آج بھی ہاں مگر اس باغ کا اب باغباں سنجیو ہے جس میں لاکھوں ہیں ستارے شاعری و نثر کے اس نئی اک کہکشاں کا آسماں سنجیو ہے خوب رو ہے خوب سیرت نرم گفتاری بھی ہے با ادب تہذیب کا سیل رواں ...

مزید پڑھیے

دریچے سو گئے شب جاگتی ہے

دریچے سو گئے شب جاگتی ہے میرے کمرے میں کیسی خامشی ہے جدھر دیکھو فسردہ زندگی ہے مجھے لگتا ہے یہ غم کی صدی ہے جو رستوں میں بھٹکتی پھر رہی ہے اسے پہچان فکر زندگی ہے سمندر کا تموج ابر و باراں زمیں کے دل میں پھر بھی تشنگی ہے ہر اک لمحہ ہمارا خون تازہ محبت جونک بن کر چوستی ہے یہ ...

مزید پڑھیے

میں اپنے شہر میں اپنا ہی چہرہ کھو بیٹھا

میں اپنے شہر میں اپنا ہی چہرہ کھو بیٹھا یہ واقعہ جو سنایا تو وہ بھی رو بیٹھا تمہاری آس میں آنکھوں کو میں بھگو بیٹھا کہ دل میں یاس کے کانٹے کئی چبھو بیٹھا متاع حال نہ ماضی کا کوئی سرمایہ ندی میں وقت کی ہر چیز کو ڈبو بیٹھا سنہرے وقت کی تحریریں جن میں تھیں محفوظ میں ان صحیفوں کو ...

مزید پڑھیے

میں محل ریت کے صحرا میں بنانے بیٹھا

میں محل ریت کے صحرا میں بنانے بیٹھا چند الفاظ کو ماضی کے بھلانے بیٹھا حادثے سے ہی ہوا غم کا مداوا میرے فلسفہ صبر کا لوگوں کو پڑھانے بیٹھا تھک کے سائے میں ببولوں کے سکوں جب چاہا اس کا ہر پتہ مجھے کانٹے لگانے بیٹھا جس نے توڑا سبھی ناطوں سبھی رشتوں کو مرے عمر بھر کا وہی اب قرض ...

مزید پڑھیے

زمیں کی آنکھ سے منظر کوئی اتارتے ہیں

زمیں کی آنکھ سے منظر کوئی اتارتے ہیں ہوا کا عکس چلو ریت پر ابھارتے ہیں خود اپنے ہونے کا انکار کر چکے ہیں ہم ہماری زندگی اب دوسرے گزارتے ہیں تمہاری جیت کا تم کو یقین آ جائے سو ہم تمہارے لیے بار بار ہارتے ہیں تلاش ہے ہمیں کچھ گمشدہ بہاروں کی گزر چکے ہیں جو موسم انہیں پکارتے ...

مزید پڑھیے

معجزے کا در کھلا اور اک عصا روشن ہوا

معجزے کا در کھلا اور اک عصا روشن ہوا دور گہرے پانیوں میں راستہ روشن ہوا جانے کتنے سورجوں کا فیض حاصل ہے اسے اس مکمل روشنی سے جو ملا روشن ہوا آنکھ والوں نے چرا لی روشنی ساری تو پھر ایک اندھے کی ہتھیلی پر دیا روشن ہوا ایک وحشت دائرہ در دائرہ پھرتی رہی ایک صحرا سلسلہ در سلسلہ ...

مزید پڑھیے

میں دسترس سے تمہاری نکل بھی سکتا ہوں

میں دسترس سے تمہاری نکل بھی سکتا ہوں یہ سوچ لو کہ میں رستہ بدل بھی سکتا ہوں تمہارے بعد یہ جانا کہ میں جو پتھر تھا تمہارے بعد کسی دم پگھل بھی سکتا ہوں قلم ہے ہاتھ میں کردار بھی مرے بس میں اگر میں چاہوں کہانی بدل بھی سکتا ہوں مری سرشت میں ویسے تو خشک دریا ہے اگر پکار لے صحرا ابل ...

مزید پڑھیے

اس کی سوچیں اور اس کی گفتگو میری طرح

اس کی سوچیں اور اس کی گفتگو میری طرح وہ سنہرا آدمی تھا ہو بہ ہو میری طرح ایک برگ بے شجر اور اک صدائے بازگشت دونوں آوارہ پھرے ہیں کو بہ کو میری طرح چاند تارے اک دیا اور رات کا کومل بدن صبح دم بکھرے پڑے تھے چار سو میری طرح لطف آوے گا بہت اے ساکنان قصر ناز بے در و دیوار بھی رہیو ...

مزید پڑھیے

آنکھوں کے غم کدوں میں اجالے ہوئے تو ہیں

آنکھوں کے غم کدوں میں اجالے ہوئے تو ہیں بنیاد ایک خواب کی ڈالے ہوئے تو ہیں تلوار گر گئی ہے زمیں پر تو کیا ہوا دستار اپنے سر پہ سنبھالے ہوئے تو ہیں اب دیکھنا ہے آتے ہیں کس سمت سے جواب ہم نے کئی سوال اچھالے ہوئے تو ہیں زخمی ہوئی ہے روح تو کچھ غم نہیں ہمیں ہم اپنے دوستوں کے حوالے ...

مزید پڑھیے

میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں

میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں سرائے درد میں ڈیرا جمائے بیٹھا ہوں نبیلؔ ریت میں سکے تلاش کرتے ہوئے میں اپنی پوری جوانی گنوائے بیٹھا ہوں یہ شہر کیا ہے نکلتا نہیں کوئی گھر سے کئی دنوں سے تماشہ لگائے بیٹھا ہوں جو لوگ درد کے گاہک ہیں سامنے آئیں ہر ایک گھاؤ سے پردہ اٹھائے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4722 سے 5858