ذرا سی ان بن میں روٹھ کر وہ جو دشمنوں میں ٹہل رہے ہیں
ذرا سی ان بن میں روٹھ کر وہ جو دشمنوں میں ٹہل رہے ہیں
ابھی جو نوحہ بنے ہوئے ہیں کبھی ہماری غزل رہے ہیں
بنا بتائے چلا گیا تھا بتا کے ملنے جو آ گیا ہوں
تو روٹھ کر وہ گئے ہیں گھر میں خوشی سے چھپ کر اچھل رہے ہیں
مرض ہوا ہے محبتوں کا یہ رات کیسے کٹے گی جانے
ہماری نیندیں بھی اڑ چکی ہیں صنم بھی کروٹ بدل رہے ہیں
وکاس کی ہے عجیب سوئیٹر بنی نہ ستر برس سے اب تک
غریب بنتے ہیں جس کو ہر دن امیر جس کو اکل رہے ہیں
جو خوں بہائے بنے مسیحا جو جھوٹ بولے بنے وہ حاتم
وہ اعلیٰ قدریں کہاں گئیں سب اصول سارے بدل رہے ہیں
وہ بن کے دجال یوں اٹھا کے خدا سمجھ کر بہک گئے سب
ہے شکر کچھ کو شعور آیا ہے شکر اب کچھ سنبھل رہے ہیں
یہ سخت نفرت یہ قتل و غارت یہ مہنگی اشیا یہ جھوٹ وعدے
شکار کب تک جئے گا آخر وہ تیر کتنے بدل رہے ہیں
بہت سے دانوں ہوئے ہیں جگ میں مگر یہ اظہرؔ بڑا ہے سب سے
چھپے ہیں ڈر سے جو دیوتا ہیں عوام کے دل دہل رہے ہیں