شکر ہے اب کے بیکلی کم ہے
شکر ہے اب کے بیکلی کم ہے
آج کل ان سے دوستی کم ہے
سانس لینے میں دم نکلتا ہے
ان ہواؤں میں کچھ نمی کم ہے
تم اسے زخم دل دکھاتے ہو
وہ جو قاتل ہے آدمی کم ہے
تاب بھر اس میں ہے جلانے کی
اپنے سورج میں روشنی کم ہے
ہم تو دنیا کو کیا سے کیا کر دیں
کیا کریں اپنی زندگی کم ہے
لگ رہا ہے کہ وہ نہ آئیں گے
آج محفل میں کھلبلی کم ہے
کام کے ہم بھی آدمی ہیں اب
آج کل ہم میں عاشقی کم ہے
ان سے اظہرؔ تو ہم نہیں جن میں
صرف صورت ہے شاعری کم ہے