وقت کی آنکھ میں صدیوں کی تھکن ہے، میں ہوں
وقت کی آنکھ میں صدیوں کی تھکن ہے، میں ہوں
دھول ہوتے ہوئے رستوں کا بدن ہے، میں ہوں
پھر ترا شہر ابھر آیا ہے میرے ہر سو
پھر وہی لوگ، وہی طرز سخن ہے، میں ہوں
ایک تاریک ستارہ کا سفر ہے درپیش
اور امید کی اک تازہ کرن ہے، میں ہوں
ایک جنگل ہے، گھنے پیڑ ہیں، اک نہر ہے اور
اک شکاری ہے، کوئی زخمی ہرن ہے، میں ہوں
کون بتلائے تجھے اے مرے ہم زاد نبیلؔ
تیرے ہمراہ جو اک اور بدن ہے، میں ہوں