شاعری

سمے سے پہلے بھلے شام زندگی آئے

سمے سے پہلے بھلے شام زندگی آئے کسی طرح بھی اداسی کا گھاؤ بھر جائے ہم اب اداس نہیں سر بہ سر اداسی ہیں ہمیں چراغ نہیں روشنی کہا جائے جو شعر سمجھے مجھے داد واد دیتا رہے گلے لگائے جسے غم سمجھ میں آ جائے گئے دنوں میں کوئی شوق تھا محبت کا اب اس عذاب میں یہ ذہن کون الجھائے کسی کے ...

مزید پڑھیے

آغاز سے انجام سفر دیکھ رہا ہوں

آغاز سے انجام سفر دیکھ رہا ہوں دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں تیراک لگاتار یہاں ڈوب رہے ہیں چپ چاپ میں دریا کا ہنر دیکھ رہا ہوں اس خواب کی تعبیر کوئی مجھ کو بتا دے منزل سے بھی آگے کا سفر دیکھ رہا ہوں اس شخص کے ہونٹوں پہ مرا ذکر بہت ہے میں اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ رہا ہوں جو ...

مزید پڑھیے

لالچ کا پھل

اک مفلس کے چار تھے بچے دال اور روٹی جو کھاتے تھے کھاتے اسی کو سمجھ کے نعمت لب پہ نہ لاتے کوئی شکایت لیکن ان میں اک لڑکا تھا اس کو نہ بھایا ایسا کھانا اک لڑکے کا دوست بنا وہ دولت مند بہت کچھ تھا وہ اس کے گھر کو آتا جاتا عمدہ عمدہ کھانے کھاتا لیکن اپنے دوست سے اس کی اک دن ہو گئی ان بن ...

مزید پڑھیے

دوست کی پہچان

بچو نظام الملک وزیر دانائی کی تھا تصویر اس سے ملنے کو صدہا آتے تھے ادنیٰ اعلیٰ اچھی جگہ پر بٹھلاتا اور محبت فرماتا اک بوڑھا آتا ہر دن حد سے زیادہ جس کا سن لوگوں نے اس سے پوچھا آتا کیوں ہے یہ بڈھا کرتے ہو کیوں اس کی عزت اس بڈھے کی یہ عظمت بولا ان سب سے یہ وزیر ہے اچھا تم سے یہ فقیر تم ...

مزید پڑھیے

سچائی

آؤ بچو سامنے بیٹھو قصہ ایک سناؤں تم کو جنگل میں اک بھوک کا مارا لکڑی لانے گیا بیچارہ جنگل میں تھی ندی گہری گر گئی بے چارے کی کلہاڑی کیا کروں دل میں سوچ رہا تھا اتنے میں اک آدمی آیا کہنے لگا کیوں تم ہو فسردہ کچھ تو بتاؤ کیا ہے صدمہ بولا وہ میں کیا کہوں بھائی میں نے کلہاڑی اپنی ...

مزید پڑھیے

دو لڑیں تیسرے کا بھلا ہو

کھیت میں چند مرغیاں ہم سن چگ رہی تھیں خوشی خوشی اک دن اور دو مرغے ایسے نظر آئے لڑ رہے تھے جو ایک بھٹے پر اتنے میں اک تیسرا مرغا آ کے چپکے سے بھٹا لے بھاگا رہ گئے دونوں ہو کے وہ خاموش اور دونوں کو آیا اب یہ ہوش ہم نہ لڑتے تو کرتے کیوں نقصان سچ تو یہ ہے کہ ہیں بڑے نادان اب جو پچھتائے ...

مزید پڑھیے

تب

پہلے ہم جاتے تھے جب سسرال میں بولتا تھا ہر کوئی سر تال میں دے نہیں سکتے اسے لفظوں کا روپ گرم جوشی تھی جو استقبال میں ساس کا چہرہ چمک اٹھتا تھا یوں چاند جیسے جھیل کے پاتال میں پیار میں ڈوبی سسر کی گفتگو کتنی شیرینی تھی ان اقوال میں کھلکھلا اٹھتی تھیں ساری سالیاں پھرتیاں آتی ...

مزید پڑھیے

نہ جانے آج کیوں ان کے لبوں پر میرا نام آیا

نہ جانے آج کیوں ان کے لبوں پر میرا نام آیا یہ کیسا انقلاب آیا سلام آیا پیام آیا مری خاموشیاں عنواں بنی ہیں کتنے قصوں کا زباں اب کھولنا ہوگی عجب مشکل مقام آیا جلائیں خود ہی شمعیں میں نے اور خود ہی بجھا ڈالیں کبھی جب یاد مجھ کو میرا خواب نا تمام آیا بگاڑے کام دنیا کے چلا افلاک سر ...

مزید پڑھیے

حد سے گزر گیا غم دوراں کبھی کبھی

حد سے گزر گیا غم دوراں کبھی کبھی دامن میں اشک ہو گئے غلطاں کبھی کبھی جب زعم عقل و ہوش سے کچھ بھی نہ بن سکا کام آ گئی ہے جرأت رنداں کبھی کبھی آتے ہیں انقلاب کبھی بہر انقلاب کشتی کو پار کرتے ہیں طوفاں کبھی کبھی سر دے دیا دیا نہ مگر غیر حق کا ساتھ دنیا میں آئے ایسے بھی انساں کبھی ...

مزید پڑھیے

خود فراموشی میں خیال کہاں

خود فراموشی میں خیال کہاں میں کہاں حسرت جمال کہاں نہ وہ آنسو ہیں اور نہ وہ آہیں اب وہ اگلا سا اپنا حال کہاں دل وحشی نے سر اٹھایا ہے دوراندیشیٔ مآل کہاں غم دنیا میں سر ہے سرگرداں اب وہ نیرنگئ خیال کہاں عہد رفتہ کو بھولنا اچھا وہ زمانہ وہ ماہ و سال کہاں ہو شکایت کسی سے نا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 4653 سے 5858