خود فراموشی میں خیال کہاں

خود فراموشی میں خیال کہاں
میں کہاں حسرت جمال کہاں


نہ وہ آنسو ہیں اور نہ وہ آہیں
اب وہ اگلا سا اپنا حال کہاں


دل وحشی نے سر اٹھایا ہے
دوراندیشیٔ مآل کہاں


غم دنیا میں سر ہے سرگرداں
اب وہ نیرنگئ خیال کہاں


عہد رفتہ کو بھولنا اچھا
وہ زمانہ وہ ماہ و سال کہاں


ہو شکایت کسی سے نا ممکن
یہ جسارت کہاں مجال کہاں


کس طرح داستان غم کہے
کوئی پرسان عرض حال کہاں