حد سے گزر گیا غم دوراں کبھی کبھی

حد سے گزر گیا غم دوراں کبھی کبھی
دامن میں اشک ہو گئے غلطاں کبھی کبھی


جب زعم عقل و ہوش سے کچھ بھی نہ بن سکا
کام آ گئی ہے جرأت رنداں کبھی کبھی


آتے ہیں انقلاب کبھی بہر انقلاب
کشتی کو پار کرتے ہیں طوفاں کبھی کبھی


سر دے دیا دیا نہ مگر غیر حق کا ساتھ
دنیا میں آئے ایسے بھی انساں کبھی کبھی


کیا کلبۂ حزیں میں نہیں رونق حیات
ہوتا ہے دل یہاں بھی غزل خواں کبھی کبھی


گھبرا کے زندگی سے تلاش قرار میں
چھانی ہے خاک دشت و بیاباں کبھی کبھی


ہر چند ہے دکن سے مجھے پیار طاہرہؔ
آتی ہے یاد محفل طہراں کبھی کبھی