نہ جانے آج کیوں ان کے لبوں پر میرا نام آیا
نہ جانے آج کیوں ان کے لبوں پر میرا نام آیا
یہ کیسا انقلاب آیا سلام آیا پیام آیا
مری خاموشیاں عنواں بنی ہیں کتنے قصوں کا
زباں اب کھولنا ہوگی عجب مشکل مقام آیا
جلائیں خود ہی شمعیں میں نے اور خود ہی بجھا ڈالیں
کبھی جب یاد مجھ کو میرا خواب نا تمام آیا
بگاڑے کام دنیا کے چلا افلاک سر کرنے
بشر کے سر میں بیٹھے بیٹھے کیا سودائے خام آیا
جوانی کہتے ہیں لغزش ہے لیکن معرفت بھی ہے
کئی راہیں نکلتی ہیں جہاں سے وہ مقام آیا
عزیز و اقربا جتنے تھے سب عشرت کے ساتھی تھے
برا جب وقت آیا طاہرہؔ کوئی نہ کام آیا