جو چشم غم شہ میں سدا روتی ہے
جو چشم غم شہ میں سدا روتی ہے ہر لمحہ فزوں اس میں ضیا ہوتی ہے اشک غم شبیر کا رتبہ دیکھو یاں اشک کا قطرہ ہے وہاں موتی ہے
جو چشم غم شہ میں سدا روتی ہے ہر لمحہ فزوں اس میں ضیا ہوتی ہے اشک غم شبیر کا رتبہ دیکھو یاں اشک کا قطرہ ہے وہاں موتی ہے
دل نے غم بے حساب کیا کیا دیکھا آنکھوں سے جہاں میں خواب کیا کیا دیکھا طفلی و شباب و عیش و رنج و راحت اس عمر نے انقلاب کیا کیا دیکھا
اکبر نے جو گھر موت کا آباد کیا صغرا کو دم نزع بہت یاد کیا لاشے پہ کمر پکڑ کے کہتے تھے حسین تم نے علی اکبر ہمیں برباد کیا
ٹھوکر بھی نہ ماریں گے اگر خود سر ہے زردار کو بھی فروتنی بہتر ہے ہے میوۂ نخل قد انساں تسلیم جھکتی ہے وہی شاخ جو بار آور ہے
اختر سے بھی آبرو میں بہتر ہے یہ اشک اللہ ہے مشتری وہ گوہر ہیں یہ اشک آنکھوں سے لگا کے ان کو کہتے ہیں ملک گوہر نہیں نور چشم کوثر ہیں یہ اشک
بست و یکم ماہ محرم ہے آج جس آنکھ کو دیکھیے وہ پر نم ہے آج عاشور سے بے دفن ہے لاشہ جس کا اس بے کفن و گور کا ماتم ہے آج
افضل کوئی مرتضیٰ سے ہمت میں نہیں اس طرح کا بندہ تو حقیقت میں نہیں طوبیٰ تسنیم و خلد و سیب و رمان وہ کیا ہے جو حیدر کی ولایت میں نہیں
بادل آ کے رو گئے ہائے غضب آنسو نایاب ہو گئے ہائے غضب جی بھر کے حسین کو نہ روئے اس سال آنکھوں کے نصیب سو گئے ہائے غضب
برہم ہے جہاں عجب تلاطم ہے آج سب روتے ہیں دنیا میں خوشی گم ہے آج چالیسویں تک گڑا نہ لاشہ جس کا اس بیکس و مظلوم کا چہلم ہے آج
اب ہند کی ظلمت سے نکلتا ہوں میں توفیق رفیق ہو تو چلتا ہوں میں تقدیر نے بیڑیاں تو کاٹی ہیں انیسؔ کیوں رک گئے پاؤں ہاتھ ملتا ہوں میں