اک مرتبہ دل پہ اضطرابی آئی
اک مرتبہ دل پہ اضطرابی آئی یعنی کہ اجل میری شتابی آئی بکھرا جاتا ہے ناتوانی سے جی عاشق نہ ہوئے کہ اک خرابی آئی
اک مرتبہ دل پہ اضطرابی آئی یعنی کہ اجل میری شتابی آئی بکھرا جاتا ہے ناتوانی سے جی عاشق نہ ہوئے کہ اک خرابی آئی
اللہ کو زاہد جو طلب کرتے ہیں ظاہر تقویٰ کو کس سبب کرتے ہیں دکھلانے کو لوگوں کے دنوں کی ہے صلوٰۃ پیش انجم نماز شب کرتے ہیں
تم تو اے مہربان انوٹھے نکلے جب آن کے پاس بیٹھے روٹھے نکلے کیا کہیے وفا ایک بھی وعدہ نہ کیا یہ سچ ہے کہ تم بہت جھوٹے نکلے
محشر میں اگر یہ آتشیں دم ہوگا ہنگامہ سب اک لپٹ میں برہم ہوگا تکلیف بہشت کاش مجھ کو نہ کریں ورنہ وہ باغ بھی جہنم ہوگا
دل غم سے ہوا گداز سارا اللہ غیرت نے ہمیں عشق کی مارا اللہ ہے نسبت خاص تجھ سے ہر اک کے تئیں کہتے ہیں چنانچہ سب ہمارا اللہ
حیرت ہے کہ ہو رقیب محرم تیرا ہمراز و انیس وقت و ہمدم تیرا جوں عکس ترے سامنے اکثر وہ ہو جوں آئینہ منھ تکا کریں ہم تیرا
کیا کیا ہیں سلوک بد فقط غم ہی نہیں پھر ہم سے جنوں میں ضعف سے دم ہی نہیں اک عمر چلی گئی جفاے شب و روز اب وہ تو نہیں شام و سحر ہم ہی نہیں
ہے ان کی نزاکتوں کا پانا مشکل کیا کیجے بیاں سمجھے ہیں وہ پاؤں کا ہلانا مشکل یہ تاب کہاں فق ہو گیا رنگ میں نے گل رو جو کہا یعنی ان کو تشبیہ کا بار ہے اٹھانا مشکل نازک ہے میاں
چلنے کا تو ہو گیا بہانہ تم کو فتنہ ہے ہر اک طرح اٹھانا تم کو جاتے ہو عدو کے ساتھ آگے سے مرے بے آگ کے آ گیا جلانا تم کو
جو ہے سو پست سب سے عالی تو ہے شایان صفات ذوالجلای تو ہے ناقص ہے ہر اک کمال تیرے آگے سب کو ہے زوال لا یزالی تو ہے