سیاروں میں ساحل ہے وہ عظمت تجھ کو
سیاروں میں ساحل ہے وہ عظمت تجھ کو کرتی ہے سلام جھک کے رفعت تجھ کو لے ہاتھ میں اے زمین پرچم اپنا کرنی ہے ستاروں کی قیادت تجھ کو
سیاروں میں ساحل ہے وہ عظمت تجھ کو کرتی ہے سلام جھک کے رفعت تجھ کو لے ہاتھ میں اے زمین پرچم اپنا کرنی ہے ستاروں کی قیادت تجھ کو
ہونٹوں کو شراب اب پلا دے ساقی رگ رگ میں اک آگ لگا دے ساقی تاریک ہوئی جاتی ہے بزم ہستی ساقی! ساقی! تو مسکرا دے ساقی
ظلمت کا طلسم توڑ کر لایا ہوں پنجا شب کا مروڑ کر لایا ہوں اے صبح کا نور پینے والو دوڑو تاروں کا لہو نچوڑ کر لایا ہوں
لذت میں خودی کی کھو گیا ہے زاہد دور دور خدا سے ہو گیا ہے زاہد سنتا نہیں اب شکستہ مسجد کی صدا سجدے میں کچھ ایسا سو گیا ہے زاہد
میں منکر اسلاف نہیں ہوں یارو کچھ حاسد اوصاف نہیں ہوں یارو ہر شعر میں بھرتا ہوں مگر وقت کی آگ شاعر ہوں سخن باف نہیں ہوں یارو
احباب نے سو طرح ہمیں خوار کیا غم اتنے دیئے ہم کو کہ بیمار کیا جو زخم ملا دل میں چھپایا اس کو چہرے کو نہ ہم نے مگر اخبار کیا
آشوب زمانہ سے ہے ڈرنا کیسا بزدل کی طرح شکوہ ہے کرنا کیسا مرنا تو بہرحال ہے اک روز عبیدؔ مرنے سے مگر پہلے ہی مرنا کیسا
آلام و مصائب سے لڑا کرتے ہیں ہر رنج کو ہنس ہنس کے سہا کرتے ہیں ہر غم ہمیں پیغام طرب دیتا ہے ہم غم کے طلب گار رہا کرتے ہیں
شعلوں کی طرح ہیں کبھی شبنم کی طرح ہیں زخموں کی صورت کبھی مرہم کی طرح کوئی بھی نہیں جس پہ بھروسہ کیجے یاں لوگ بدل جاتے ہیں موسم کی طرح
ہم دل کا ہر اک زخم چھپا لیتے تھے ہر ایک کو سینے سے لگا لیتے تھے اب دوست بھی ہیں دشمن جانی اپنے دشمن کو بھی ہم دوست بنا لیتے تھے