سیلاب بلا رقص نہ فرمائے کہیں
سیلاب بلا رقص نہ فرمائے کہیں سرکش طوفاں نہ بڑھ کے ٹکرائے کہیں ساحل کا طواف کرنے والو ہشیار ساحل پہ بھی دریا ہی نہ چھا جائے کہیں
سیلاب بلا رقص نہ فرمائے کہیں سرکش طوفاں نہ بڑھ کے ٹکرائے کہیں ساحل کا طواف کرنے والو ہشیار ساحل پہ بھی دریا ہی نہ چھا جائے کہیں
صحراؤں کی بات زاروں میں کہی روداد حیات استعاروں میں کہی حیرت ہے زمانے کو آخر کیوں کر پرویزؔ نے داستان اشاروں میں کہی
نالوں سے کبھی نام نہ لوں گا اے دوست رسوائی کا الزام نہ لوں گا اے دوست بد نام نہ ہوگی کبھی خلوت تیری محفل میں ترا نام نہ لوں گا اے دوست
مستی میں نظر چمک رہی ہے ساقی ساری محفل مہک رہی ہے ساقی کیا کیف رباعیوں میں بھر لایا ہوں ہر لفظ سے مے چھلک رہی ہے ساقی
سن سکتے ہو نغمہ آج بھی تم میرا زندوں میں بھی باقی ہے ترنم میرا لاکھوں ہونٹوں کی تازگی ہے اس میں کمھلا ہی نہیں سکتا تبسم میرا
رندوں میں نہیں کوئی رقابت ساقی ضد ہے کہ پئیں گے باجماعت ساقی کیا ظلم ہے محتسب کے بہکانے پر اس کو بھی سمجھ گیا سیاست ساقی
عصمت پہ تری نثار ہونا ہے مجھے پھر دل کی زمیں میں ضبط بونا ہے مجھے آنسو مرے پروردہ نہیں ہیں اے دوست رونا بھی جو ہے تو چھپ کے رونا ہے مجھے
سہمے سہمے دلوں میں ہمت جاگی غیرت نے جھنجھوڑا تو مشقت جاگی محکومی کی نیند کا شکنجہ ٹوٹا وہ دیکھو پو پھٹی وہ بغاوت جاگی
کیا رنگ زمین و آسماں ہے ساقی اترا ہوا چہرۂ جہاں ہے ساقی لو دینے لگے وقت کے عارض جس سے وہ بہتی ہوئی آگ کہاں ہے ساقی
روتا ہی رہوں گا مسکرانے تو دو دم بھر کے لئے سکون پانے تو دو اٹھ جائے گی خود رخ توقع سے نقاب کچھ اور فریب کھانے تو دو