ایماں کا تقاضہ ہے کہ خوددار بنو
ایماں کا تقاضہ ہے کہ خوددار بنو زر داروں کی دہلیز پہ سجدہ نہ کرو زہراب ملے یا رسن و دار عبیدؔ ہرگز کسی قاتل کو مسیحا نہ کہو
ایماں کا تقاضہ ہے کہ خوددار بنو زر داروں کی دہلیز پہ سجدہ نہ کرو زہراب ملے یا رسن و دار عبیدؔ ہرگز کسی قاتل کو مسیحا نہ کہو
ہجرت تمہیں کرنی ہے مہاجر کی طرح سمجھو نہ اسے منزل آخر کی طرح دنیا جسے کہتے ہیں سرائے ہے عبیدؔ رہنا ہے یہاں ایک مسافر کی طرح
کیا حال اب اس سے اپنے دل کا کہئے منظور نہیں یہ بھی کہ بے جا کہئے مشکل ہے مہینوں میں نہ جاوے جو کہا پھر ملیے جو ایک دم تو کیا کیا کہئے
پس اس کے گئے سپر جو ہم کر سینہ دل کرنے کو اس کی جاہ کا گنجینہ جب ہم نے کہا دیکھنے آئے ہیں تمہیں سن کر یہ لگا وہ دیکھنے آئنہ
مکھڑے کو جو اس کے ہم نے جا کر دیکھا سنکھ تو نہیں یہ چھپ چھپا کر دیکھا وہ حسن نظر پڑا کہ جس کا ہم نے جب رات ہوئی تو مہ کو چاکر دیکھا
ہم دل سے جو چاہتے ہیں اے جان تمہیں بے کل ہوں اگر نہ دیکھیں ایک آن تمہیں تم پاس بٹھاؤ تو ذرا بیٹھیں ہم مشکل ہے ہمیں تو اور ہے آسان تمہیں
یاد آتی ہیں جب ہمیں وہ پہلی چاہیں افسوس کرے ہے دل میں کیا کیا راہیں تھے شور جو قہقہ کے سو ان کے بدلے اب شور مچا رہی ہیں جی میں آہیں
کوچے میں تمہارے ہم جو ٹک آتے ہیں اور دل کو ذرا بیٹھ کے بہلاتے ہیں ہو تم جو دل آرام تو ہم دیکھ تمہیں اک دم رخ آرام کو تک جاتے ہیں
اس شوخ کو ہم نے جس گھڑی جا دیکھا مکھڑے میں عجب حسن کا نقشہ دیکھا ایک آن دکھائی ہمیں ہنس کر ایسی جس آن میں کیا کہیں کہ کیا کیا دیکھا
ہے چاہ نے اس کی جب سے کی جا دل میں کیا کیا کہئے جو ہے مہیا دل میں جاتی ہے جدھر نگاہ اللہ اللہ آتا ہے نظر عجب تماشا دل میں