یہ بھی اپنی خواہش ہے
چاندنی رات کے آئینے میں تم دیکھو جب اپنی صورت ہم بھی دیکھ سکیں یہ منظر یہی تو اپنی خواہش ہے پھول کہیں جو سرگوشی میں سارے بھید تمہارے تن کے ہم بھی سن پائیں یہ حکایت یہ بھی اپنی خواہش ہے
چاندنی رات کے آئینے میں تم دیکھو جب اپنی صورت ہم بھی دیکھ سکیں یہ منظر یہی تو اپنی خواہش ہے پھول کہیں جو سرگوشی میں سارے بھید تمہارے تن کے ہم بھی سن پائیں یہ حکایت یہ بھی اپنی خواہش ہے
گر ہمارے ہونے سے اس اداس بستی میں کوئی دل بہل جائے تشنہ لب زمینوں پر گر ہمارے خوں سے بھی اک گلاب کھل جائے ہم کو اپنے ہونے کا کچھ سراغ مل جائے
موت حیات کے شجر کا پھل ہے اسے بھی چکھ کر دیکھو بہت کنارے دیکھ چکے اب ندی سے مل کر دیکھو خاک پہ اپنی تدبیروں سے نقش بنائے کیا کیا بہت چلے ان رستوں پر اب ہوا میں چل کر دیکھو اور بھی دشت ہیں اور بھی در ہیں اس بستی سے میلوں باہر ان جیسے ہی اور بھی گھر ہیں جن کے آنگن جلتے بجھتے ایسے ہی ...
جب تم اپنے ہو اور ہم اپنے ہیں پھر دکھ کیسا جب خاک سے اگے فسانے اور دلوں میں چھپے خزانے سب ایک ہیں پھر دکھ کیسا جو تم نے لگائے تن پر اور ہم نے سجائے دل میں سب زخم ہیں پھر دکھ کیسا جب پھولوں کے چہرے پر اور دل سے بہتے لہو میں سب رنگ ہے پھر دکھ کیسا جب ندی میں بہتا پانی اور آنکھ سے ...
خوابوں میں ہمارے نخل اگے انہیں خاک ملی اشجار ہوئے کاغذ پہ تو رنگ تھے پھیکے سے پھولوں میں سجے گلزار ہوئے کبھی میدان اپنی راہ میں تھے کبھی کوہ پہ ہم نے خرام کیا انہیں منظروں میں تھا جو شہر بسا اسی شہر کو ہم نے امام کیا
ریشمی ملبوس میں وہ گل رخوں کے قافلے اس رنگ و بو کے شیر میں ہم اجنبی دل سوختہ یادوں کے پیہم سلسلے محراب در سے جھانکتا ساقی کی چشم مست کا رک رک کے چلنا یاد ہے دنیائے بود و ہست کا اس داستاں کے باب میں وہ سیم تن شعلہ بجاں جن کے رخ تابندہ سے یہ گلستاں روشن ہوا جن کے لہو سے حرف بھی معنی کا ...
ایسا کیا دیکھا ہے ہم نے پردے میں خاموشی کے ایسا بھی کیا چھپا ہوا ہے اس گہری تاریکی میں وہ جو نہیں کوئی اور تو ہوگا ان لمحوں کی دوری میں
یہ جو باغ کھلائے ہم نے ان باغوں کی ہریالی میں جو پھول کھلے وہ سب کا ہے یہ جو شہر بسائے ہیں ہم نے ان شہروں کی خوشبو میں بسا جو سانس ملے وہ سب کا ہے ان باغوں کی ہریالی میں ان شہروں کے بازاروں میں اک خوابوں جیسی صبح ملے اک صبح ملے جو سب کی ہو اک خوشیوں جیسی شام ملے اک شام ملے جو سب کی ...
آسماں کی وسعتوں میں گھومتے تمام دن گزر گیا ستارہ ٹمٹما رہا تھا شب ڈھونڈتے رہے سبھی مرے لہو میں بہہ گیا کدھر گیا سنہری دھوپ چھاؤں میں نیلگوں فضاؤں میں اسے مری تلاش تھی میں اس کو ڈھونڈھتا رہا شام جب تھکے تھکے بکھرتے بال و پر لیے میں خاک کا امیں ہوا ستارہ میرے بخت کا زمیں کی کوکھ ...
ہم بہتے دریاؤں کی مانند نرم زمینوں کی تلاش میں ہیں جن کے ملائم بدن میں خوشبو ہو پر ان کی کوکھ میں بیج نہ ہو اس آس پر کہ بہتے دریا کا جب خاک سے وصل ہو بہتے بادلوں پر شام کا سفر جاری ہو مٹی اپنے مساموں میں آب سمو کر شانت ہو جائے پھر آسمان پر ستارے اور زمین پر نئے پھول پھولوں کے گرد ...