شیرازہ

ریشمی ملبوس میں
وہ گل رخوں کے قافلے
اس رنگ و بو کے شیر میں
ہم اجنبی دل سوختہ یادوں کے پیہم سلسلے
محراب در سے جھانکتا
ساقی کی چشم مست کا
رک رک کے چلنا یاد ہے
دنیائے بود و ہست کا
اس داستاں کے باب میں
وہ سیم تن شعلہ بجاں
جن کے رخ تابندہ سے
یہ گلستاں روشن ہوا
جن کے لہو سے حرف بھی
معنی کا پیراہن بنا
آئے ہیں ہم بھی ڈھونڈنے
ان مہ وشوں کے نقش پا
آنکھوں میں خواب ہجر سے
شدت تھی شوق وصل میں
لاہور سے شیراز تک
چشم زدن میں کٹ گئے
صدیوں برابر فاصلے