ایک حزنیہ
لفظوں سے معنوں کا رشتہ پہلے شاید کچھ ہوتا تھا جب ہم تتلایا کرتے تھے اور اپنی کچی سی زباں میں دل سے دل تک جا سکتے تھے لیکن اب لفظوں سے معانی اپنا رشتہ پوچھ رہے ہیں اب ہم کو قدرت ہے زباں پر تتلانا ہم بھول چکے ہیں
لفظوں سے معنوں کا رشتہ پہلے شاید کچھ ہوتا تھا جب ہم تتلایا کرتے تھے اور اپنی کچی سی زباں میں دل سے دل تک جا سکتے تھے لیکن اب لفظوں سے معانی اپنا رشتہ پوچھ رہے ہیں اب ہم کو قدرت ہے زباں پر تتلانا ہم بھول چکے ہیں
نظر کے تیر سے اک درد سا اٹھتا ہے سینہ میں پھر اس کے بعد سے ہی سب کا جی لگتا ہے جینے میں یہ ایسا درد ہے جو دن بہ دن بڑھتا ہی جاتا ہے چڑھے دریا محبت کا تو بس چڑھتا ہی جاتا ہے محبت جس میں رہتی ہے وہ من میلا نہیں ہوتا کہ جیسے چاندنی چھو لے تو تن میلا نہیں ہوتا اسی خوشبو کو لے کے رات کی ...
بھونکتے ہیں جو کتے ان کے سامنے کوئی ڈال دے اگر ہڈی جانتے ہیں کیا ہوگا یک نگاہ و یک آہنگ استخواں پہ جھپٹیں گے اور لوگ دیکھیں گے اتحاد باہم کا زہر پاش نظارہ دل خراش نظارہ ایک ان کی غراہٹ ایک پینترا ان کا ایک بھونکنا ان کا ایک کاوش پیہم رات کی خموشی میں جھلملائیں گے تارے سوئیں گے ...
کتنی گرمی ہے عیاذاً باللہ زیر جاموں کے تلے جسم کے ہر گوشے میں چپچپاتا ہے پسینے کا نمک گرم پورب کی امستی ہوئی مرطوب ہوا اپنے نمناک لپکتے ہوں ہاتھوں سے جسے پرشکن بھیگے ہوئے سمٹے ہوئے آنچل میں جذب کر سکتی نہیں اور بھگو دیتی ہے اور ہمسائے کے مطبخ کی کھلی کھڑکی سے اک بھلستے ہوئے بیگن ...
چھلک جاتی ہیں آنکھیں جب بھی ہم فریاد کرتے ہیں وہ دن کیا پھر نہ آئیں گے جنہیں ہم یاد کرتے ہیں وہ ان کا پیار وہ شیخ و برہمن یاد آتے ہیں کبھی اک شاخ پر تھے دو نشیمن یاد آتے ہیں خوشی ملتی تھی اس کو جو کسی کے کام آتا تھا کسی کا درد لے کر کس قدر آرام آتا تھا وہی ہم ہیں وہی تم ہو پھر اتنا ...
بہت دن ہوئے ایک تالاب کے پاس میں نے پرندوں کو دیکھا فلک پر بھٹکتے ہوئے چند بادل تھے اور صبح کی دھوپ میں ہلکی ہلکی سی ٹھنڈک وہاں گہرے تالاب کے پاس اونچے درختوں کی اس اوٹ میں دھوپ کی ٹھنڈی ٹھنڈی سی کرنوں سے لپٹے ہوئے سبز پتے درختوں سے تالاب میں گر رہے تھے وہیں میں نے دیکھا کہ دنیا ...
تمہیں پہلی نظر میں دیکھ کر ایسے لگا جیسے تمہیں ملنے سے پہلے ہی مجھے تم سے محبت تھی
شام سہانی سرمئی بادل وادی میں اتر کر سرگوشی کرتے ہیں تیز ہوائیں پھولوں پتوں کا منہ شوخی سے چوم رہی ہیں دھرتی کا ذرہ ذرہ دمک رہا ہے کس کو آنا ہے کون آئے گا تم نے اپنی سانسوں کے دھاگے جس سے باندھ رکھے ہیں وہ تو نہیں آئے گا وہ خود سر ہے اس کی انا اس کے قدموں کی زنجیر بنی ہے کتنے آنسو ...
زندگی کے مزاروں پر حسرتوں کے چڑھاوے تو چڑھتے ہیں مگر جب پیر کامل مل جائے منتیں سبھی پوری ہو جاتی ہیں
انہیں سنگسار کر ڈالو انہیں مسمار کر ڈالو عصمتوں کے کھلاڑیوں کو ہوس کے پجاریوں کو حوا کی بیٹیوں کے شکاریوں کو انہیں سنگسار کر ڈالو انہیں مسمار کر ڈالو مجرم تو بن سکتے ہیں محرم بن نہیں سکتے یہ عزت کر نہیں سکتے یہ عزت بن نہیں سکتے جنہیں جس ذات نے پالا اسی سے بے وفا نکلے انہیں سنگسار ...