جینا تو اسی کو کہتے ہیں

شام سہانی سرمئی بادل
وادی میں اتر کر سرگوشی کرتے ہیں
تیز ہوائیں پھولوں پتوں کا منہ شوخی سے چوم رہی ہیں
دھرتی کا ذرہ ذرہ دمک رہا ہے
کس کو آنا ہے کون آئے گا
تم نے اپنی سانسوں کے دھاگے جس سے باندھ رکھے ہیں
وہ تو نہیں آئے گا
وہ خود سر ہے اس کی انا اس کے قدموں کی زنجیر بنی ہے
کتنے آنسو اور بہاؤ گی
تم کچھ بھی کر لو سب لا حاصل
کیونکہ تم ماں ہو
اپنے بیٹے کی خوشیوں کی خاطر خود کو خوش کرنے کی خاطر
اپنی انا کے پرچم کو اس کے قدموں میں لا ڈالو
اپنی ممتا کی ٹھنڈک کے لئے
اپنے بیٹے کی جانب سے اپنے آپ سے کہہ دو
ماں تم کہہ دو تو قدموں میں تمہارے گر جاؤں
ہاں پگلی ایسے بھی جیتے ہیں
جینا تو اسی کو کہتے ہیں