نظم

چھلک جاتی ہیں آنکھیں جب
بھی ہم فریاد کرتے ہیں
وہ دن کیا پھر نہ آئیں گے
جنہیں ہم یاد کرتے ہیں


وہ ان کا پیار وہ شیخ و برہمن یاد آتے ہیں
کبھی اک شاخ پر تھے دو
نشیمن یاد آتے ہیں


خوشی ملتی تھی اس کو جو کسی کے کام آتا تھا
کسی کا درد لے کر کس قدر
آرام آتا تھا


وہی ہم ہیں وہی تم ہو
پھر اتنا فاصلہ کیوں ہے
سبھی کچھ ایک ہے تو پھر
یہ دل سے دل جدا کیوں ہے


کبھی اس ملک کی نزدیک سے
تصویر تو دیکھو
کسی کے خواب کی ٹوٹی ہوئی
تعبیر تو دیکھو


خزاں کا دور اس دل کے
چمن سے کیسے نکلے گا
ہمارے ملک کا سورج گہن
سے کیسے نکلے گا


سمنؔ درس محبت
یوں پرندے ہم کو دیتے ہیں
کبھی مندر میں رہتے ہیں
کبھی مسجد میں رہتے ہیں