پھر ترے قول و قسم یاد آئے

پھر ترے قول و قسم یاد آئے
تری چاہت کے ستم یاد آئے


کس قدر چوٹ لگی ہے دل پر
جب بھی مر مر کے صنم یاد آئے


یاد جب آیا ترا نام مجھے
کتنے بے نام سے غم یاد آئے


جانے وہ کیسا سفر تھا میرا
جس کا اک ایک قدم یاد آئے


پھر مرا ذہن ہے الجھا الجھا
پھر تری زلف کے خم یاد آئے


اور بھی یاد کی لو تیز ہوئی
جب بھی چاہا کہ وہ کم یاد آئے


کون بیتابؔ پکارے ہم کو
کس کو تنہائی میں ہم یاد آئے