میں پجاری تھا مگر میرا کوئی مندر نہ تھا
میں پجاری تھا مگر میرا کوئی مندر نہ تھا
جو بھی تھا پہلو میں میرے وہ مرا دلبر نہ تھا
کس قدر دل کش لگیں سپنے میں گلیاں شہر کی
کھل گئی جب آنکھ تو پھر وہ حسیں منظر نہ تھا
جانے کیا شے دل کے آئینے کے ٹکڑے کر گئی
دیکھنے میں اس کے ہاتھوں میں کوئی پتھر نہ تھا
بد حواسی تھی مری یا تجھ سے ملنے کی لگن
جس پہ دستک دے رہا تھا میں وہ تیرا گھر نہ تھا
بیٹھے بیٹھے یوں لگا جیسے پکارے تو مجھے
کھول کر دیکھا جو دروازہ کوئی باہر نہ تھا
وہ تو تھا شاید کوئی بیتابؔ پتھر کا بدن
چھو کے دیکھا تھا جسے میں نے ترا پیکر نہ تھا