یوں سنہری دھوپ بکھری ہے رخ کہسار پر

یوں سنہری دھوپ بکھری ہے رخ کہسار پر
جس طرح غازہ چمکتا ہے ترے رخسار پر


اڑتے لمحوں کو پکڑنے کی تمنا ہے عبث
یہ پرندے تو کبھی ٹکتے نہیں اشجار پر


وہ مرے چہرے پہ کیا ماضی کی تحریریں پڑھے
اس کی نظریں تو جمی ہیں آج کے اخبار پر


آج تو اک حادثہ اس کو بھی ننگا کر گیا
لاکھ پردے تھے پڑے جس شخص کے کردار پر


آرزو یہ ہے کہ تو اے کاش ہو جائے امر
نام تیرا لکھ رہا ہوں ریت کی دیوار پر


کیسے کیسے لوگ آخر کس طرح روندے گئے
کون ہے بیتابؔ قادر وقت کی رفتار پر