ہونٹوں پہ مہر بھی نہیں نغمات بھی نہیں

ہونٹوں پہ مہر بھی نہیں نغمات بھی نہیں
اے مہرباں یہ شہر طلسمات بھی نہیں


شہروں میں گام گام پہ لاکھوں گنا سہی
معصوم اتنے آج کے دیہات بھی نہیں


وہ بیٹھتا ہے شہر کے ہوٹل میں آج بھی
میرے نصیب میں کوئی فٹ پاتھ بھی نہیں


اب ذہن میں بھی قوس قزح پھوٹتی نہیں
ہاتھوں میں میرے آج ترا ہاتھ بھی نہیں


وہ آئے بھی تو کس طرح ڈولی میں بیٹھ کر
دولہا نہیں ہوں میں کوئی بارات بھی نہیں


سرما کی رات ریل کا ڈبہ اداسیاں
لمبا سفر ہے اور ترا ساتھ بھی نہیں