شاعری

ندی کی لے پہ خود کو گا رہا ہوں

ندی کی لے پہ خود کو گا رہا ہوں میں گہرے اور گہرے جا رہا ہوں چرا لو چاند تم اس سمت چھپ کر میں شب کو اس طرف رجھا رہا ہوں وہ سر میں سر ملانا چاہتی ہے میں اپنی دھن بدلتا جا رہا ہوں یہی موقع ہے خارج کر دوں خود کو میں اپنے آپ کو دہرا رہا ہوں

مزید پڑھیے

عشق کی اک رنگین صدا پر برسے رنگ

عشق کی اک رنگین صدا پر برسے رنگ رنگ ہو مجنوں اور لیلیٰ پر برسے رنگ کب تک چنری پر ہی ظلم ہوں رنگوں کے رنگریزہ تیری بھی قبا پر برسے رنگ خواب بھریں تری آنکھیں میری آنکھوں میں ایک گھٹا سے ایک گھٹا پر برسے رنگ اک سترنگی خوشبو اوڑھ کے نکلے تو اس بے رنگ اداس ہوا پر برسے رنگ اے دیوی ...

مزید پڑھیے

منہ اندھیرے تیری یادوں سے نکلنا ہے مجھے

منہ اندھیرے تیری یادوں سے نکلنا ہے مجھے اور پھر ماضی کا پیراہن بدلنا ہے مجھے پربتوں پر صبح کی سی دھوپ ہوں میں ان دنوں جانتا ہوں اب ڈھلانوں پر پھسلنا ہے مجھے وار سے بچنا تو ہے ہی وار اک کرنا بھی ہے اور ان کے بیچ ہی رک کر سنبھلنا ہے مجھے مجھ پے ہی آ کر ٹکیں بے دار آنکھیں اس لیے بن ...

مزید پڑھیے

جب بھی دکھ جائیں وہ حیرت کرنا

جب بھی دکھ جائیں وہ حیرت کرنا ایسے رنگوں کی حفاظت کرنا اس کا مجھ سے یوں ہی لڑ لینا اور گھر کی چیزوں سے شکایت کرنا میرے تعویذ میں جو کاغذ ہے اس پہ لکھا ہے محبت کرنا

مزید پڑھیے

دل زباں ذہن مرے آج سنورنا چاہیں

دل زباں ذہن مرے آج سنورنا چاہیں سب کے سب صرف تری بات ہی کرنا چاہیں داغ ہیں ہم ترے دامن کے سو ضدی بھی ہیں ہم کوئی رنگ نہیں ہیں کہ اترنا چاہیں آرزو ہے ہمیں صحرا کی سو ہیں بھی سیراب خشک ہو جائیں ہم اک پل میں جو جھرنا چاہیں یہ بدن ہے ترا یہ عام سا رستہ تو نہیں اس کے ہر موڑ پہ ہم صدیوں ...

مزید پڑھیے

دھوپ کے بھیتر چھپ کر نکلی

دھوپ کے بھیتر چھپ کر نکلی تاریکی سایوں بھر نکلی رات گری تھی اک گڈھے میں شام کا ہاتھ پکڑ کر نکلی رویا اس سے مل کر رویا چاہت بھیس بدل کر نکلی پھول تو پھولوں سا ہونا تھا تتلی کیسی پتھر نکلی سوت ہیں گھر کے ہر کونے میں مکڑی پوری بن کر نکلی تازہ دم ہونے کو اداسی لے کر غم کا شاور ...

مزید پڑھیے

خدارا رہزنوں دل کے مرے ارمان مت چھنیو

خدارا رہزنوں دل کے مرے ارمان مت چھنیو بنا دو گے اسے تم خانۂ ویران مت چھنیو اجاڑو مت مرا گلشن مجھے ناشاد رہنے دو مرے آنسو مری راحت کے یہ سامان مت چھنیو تبسم چھین لو ہونٹوں کا خوشیاں زیست کی لیکن مرے افسانہ ہائے شوق کے عنوان مت چھنیو خموشی داستان غم مری کہہ جائے گی اک دن مرے کچھ ...

مزید پڑھیے

وصال و ہجر کی ہمیں لطافتیں کہاں ملیں

وصال و ہجر کی ہمیں لطافتیں کہاں ملیں سکون قلب دے سکیں وہ راحتیں کہاں ملیں کہاں کے ماہ و نجم اب یہ دہشتوں کا دور ہے خیال حسن یاد کی نزاکتیں کہاں ملیں یہ ان کا شہر آرزو بھی کتنا زرنگاہ ہے میں ڈھونڈھتی ہی رہ گئی صداقتیں کہاں ملیں طبیب بھی حبیب بھی شفیق بھی بہت ملے ملے تو دوست ہر ...

مزید پڑھیے

وہ لوٹ آئی ہے آفس سے ہجر ختم ہوا

وہ لوٹ آئی ہے آفس سے ہجر ختم ہوا ہمارے گال پہ اک کس سے ہجر ختم ہوا پھر ایک آگ لگی جس میں وصل کی تھی چمک خیال یار کی ماچس سے ہجر ختم ہوا تھا بزم دنیا میں مشکل ہمارا ملنا سو نکل کے آ گئے مجلس سے ہجر ختم ہوا بھلی شراب ہے یہ وصل نام ہے اس کا بس ایک جام پیا جس سے ہجر ختم ہوا تمہارے ہجر ...

مزید پڑھیے

مذاق سہنا نہیں ہے ہنسی نہیں کرنی

مذاق سہنا نہیں ہے ہنسی نہیں کرنی اداس رہنے میں کوئی کمی نہیں کرنی یہ زندگی جو پکارے تو شک سا ہوتا ہے کہیں ابھی تو مجھے خود کشی نہیں کرنی گناہ عشق رہا ہوتے ہی کریں گے پھر گواہ بننا نہیں مخبری نہیں کرنی بڑے ہی غصے میں یہ کہہ کے اس نے وصل کیا مجھے تو تم سے کوئی بات ہی نہیں کرنی

مزید پڑھیے
صفحہ 59 سے 4657