منہ اندھیرے تیری یادوں سے نکلنا ہے مجھے
منہ اندھیرے تیری یادوں سے نکلنا ہے مجھے
اور پھر ماضی کا پیراہن بدلنا ہے مجھے
پربتوں پر صبح کی سی دھوپ ہوں میں ان دنوں
جانتا ہوں اب ڈھلانوں پر پھسلنا ہے مجھے
وار سے بچنا تو ہے ہی وار اک کرنا بھی ہے
اور ان کے بیچ ہی رک کر سنبھلنا ہے مجھے
مجھ پے ہی آ کر ٹکیں بے دار آنکھیں اس لیے
بن کے جگنو آس کا ہر رات جلنا ہے مجھے
اے مری مصروفیت مجھ کو ضرورت ہے تری
اک پرانے غم کا سر پھر سے کچلنا ہے مجھے
اک اداسی کا سمندر ہے مرے اندر کہیں
ہاں اسی میں شام کے سورج سا ڈھلنا ہے مجھے
میں کسی مفلس کا جی ہوں یوں نہیں تو یوں سہی
بس ذرا سی بات سے ہی تو بہلنا ہے مجھے
میں کوئی بت تو نہیں آتشؔ ملائم برف کا
آنچ سے اک دن مگر اپنی پگھلنا ہے مجھے