وہ لوٹ آئی ہے آفس سے ہجر ختم ہوا

وہ لوٹ آئی ہے آفس سے ہجر ختم ہوا
ہمارے گال پہ اک کس سے ہجر ختم ہوا


پھر ایک آگ لگی جس میں وصل کی تھی چمک
خیال یار کی ماچس سے ہجر ختم ہوا


تھا بزم دنیا میں مشکل ہمارا ملنا سو
نکل کے آ گئے مجلس سے ہجر ختم ہوا


بھلی شراب ہے یہ وصل نام ہے اس کا
بس ایک جام پیا جس سے ہجر ختم ہوا


تمہارے ہجر میں سو وصل سے گزر کر بھی
یہ سوچتا ہوں کہاں کس سے ہجر ختم ہوا