شاعری

جاگتے میں رات مجھ کو خواب دکھلایا گیا

جاگتے میں رات مجھ کو خواب دکھلایا گیا بن کے شاخ گل مری آنکھوں میں لہرایا گیا جو مسک جائے ذرا سی ایک نوک حرف سے کیوں مجھے ایسا لباس جسم پہنایا گیا اپنے اپنے خوف گھر میں لوگ ہیں سہمے ہوئے دائرے سے کھینچ کر نقطے کو کیوں لایا گیا یہ مرا اپنا بدن ہے یا کھنڈر خوابوں کا ہے جانے کس کے ...

مزید پڑھیے

کس طرح زندہ رہیں گے ہم تمہارے شہر میں

کس طرح زندہ رہیں گے ہم تمہارے شہر میں ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں ماہ پارے شہر میں جگمگاتی روشنی میں یہ نہاتے سیم تن جیسے اترے ہوں زمیں پر چاند تارے شہر میں مثل خوشبوئے صبا پھیلی ہوئی ہے ہر طرف گیسوئے بنگال کی خوشبو ہمارے شہر میں حسن والوں کے ستم سہہ کر بھی ہم زندہ رہے ورنہ کتنوں کے ...

مزید پڑھیے

کتنے جگ بیت گئے پھر بھی نہ بھولا جائے

کتنے جگ بیت گئے پھر بھی نہ بھولا جائے میں جہاں جاؤں مرے ساتھ وہ چہرہ جائے رات اب لوٹ چلی نیند سے جاگا جائے اپنے کھوئے ہوئے سورج کو پکارا جائے یہ دمکتے ہوئے رخسار چمکتی آنکھیں زندگی کر چکے اب ڈوب کے دیکھا جائے اب کے طوفان میں ہو جائے نہ ریزہ ریزہ جسم کی ٹوٹتی دیوار کو تھاما ...

مزید پڑھیے

میرے حصے میں بے دلی آئی

میرے حصے میں بے دلی آئی موت آئی نہ زندگی آئی کوئی منظر کھلا نہ آنکھوں میں جو بھی رت آئی شبنمی آئی لہر سی دور تک اٹھی دل میں آج پھر یاد آپ کی آئی کوئی لمحہ چمک اٹھا شاید ورنہ آنکھوں میں کیوں نمی آئی آئنہ دیکھا دیکھ کر رویا خود کو سوچا تو پھر ہنسی آئی اب تو ہر شہر شہر مقتل ہے جو ...

مزید پڑھیے

اونچی نیچی پیچ کھاتی دوڑتی کالی سڑک

اونچی نیچی پیچ کھاتی دوڑتی کالی سڑک کتنے سوتے جاگتے فتنوں کی ہے والی سڑک رات کی گہری خموشی ٹمٹماتی روشنی ایک میں تنہا مسافر دوسری خالی سڑک آتے جاتے لاکھ قدموں کے نشاں ابھرے مگر آج بھی چکنی نظر آتی ہے متوالی سڑک سب کے سب راہی مسافر منزلوں تک جا چکے ہے مگر حد نظر اب نقش پامالی ...

مزید پڑھیے

تھا آئینہ کے سامنے چہرہ کھلا ہوا

تھا آئینہ کے سامنے چہرہ کھلا ہوا پانی پہ جیسے چاند کا سایہ پڑا ہوا گھلتی گئی بدن میں تمازت شراب کی ساغر نگاہ کا تھا لبالب بھرا ہوا کل رات تھوڑی دیر کو پلکیں جھپک گئیں جاگا تو جوڑ جوڑ تھا اپنا دکھا ہوا شاید کہ سو گئے ہیں بہت تھک کے دل جلے شہر جنوں تمام ہے سونا پڑا ہوا تہذیب ...

مزید پڑھیے

وہ اور کچھ نہیں اک طرز گفتگو کی تھی

وہ اور کچھ نہیں اک طرز گفتگو کی تھی کہا یہ کس نے کبھی تیری آرزو کی تھی کبھی بھی اپنی طبیعت نہ جنگجو کی تھی وہاں انا کی نہیں بات آبرو کی تھی جو زخم تھا تو ذرا خون ہی ٹپکتا تھا جلن تمام ترے سوزن رفو کی تھی ترا جمال تھا یا تھا طلسم ہوش ربا للک عجیب سے مجھ میں بھی جستجو کی ...

مزید پڑھیے

آج کا دن بھی گزر جائے گا

آج کا دن بھی گزر جائے گا قافلہ لوٹ کے گھر جائے گا راہ کٹتی ہی نہیں ہے اپنی ساتھ کب تک یہ سفر جائے گا زخم تازہ ہے تو دل دکھتا ہے وقت کے ساتھ یہ بھر جائے گا آزما گردش دوراں تو بھی آئینہ اور سنور جائے گا بھاگتے دوڑتے لمحوں کا سفر کب اچانک ہی ٹھہر جائے گا صبح کھلتا ہوا ہر پھول ...

مزید پڑھیے

شدت جذب میں جب عالم ہو بولتا ہے

شدت جذب میں جب عالم ہو بولتا ہے مئے گل رنگ چھلکتی ہے سبو بولتا ہے دل کا آئینہ کھلا ہو تو سکوت شب میں میں بیاں کرتا ہوں خود کو کبھی تو بولتا ہے جگمگا اٹھتا ہے دم بھر میں چمن زار خیال چاند پہلو میں اتر کر لب جو بولتا ہے موسم برف میں ہر رات گزرتی ہے مگر گاہے گاہے سہی خوابیدہ لہو ...

مزید پڑھیے

وہ مرا ہوگا یہ سوچا ہی نہیں

وہ مرا ہوگا یہ سوچا ہی نہیں خواب ایسا کوئی دیکھا ہی نہیں یوں تو ہر حادثہ بھولا لیکن اس کا ملنا کبھی بھولا ہی نہیں میری راتوں کے سیہ آنگن میں چاند کوئی کبھی چمکا ہی نہیں یہ تعلق بھی رہے یا نہ رہے دل قلندر کا ٹھکانا ہی نہیں

مزید پڑھیے
صفحہ 54 سے 4657