میرے حصے میں بے دلی آئی
میرے حصے میں بے دلی آئی
موت آئی نہ زندگی آئی
کوئی منظر کھلا نہ آنکھوں میں
جو بھی رت آئی شبنمی آئی
لہر سی دور تک اٹھی دل میں
آج پھر یاد آپ کی آئی
کوئی لمحہ چمک اٹھا شاید
ورنہ آنکھوں میں کیوں نمی آئی
آئنہ دیکھا دیکھ کر رویا
خود کو سوچا تو پھر ہنسی آئی
اب تو ہر شہر شہر مقتل ہے
جو ہوا آئی چیختی آئی
آگہی کر گئی بہت گمراہ
کام آئی تو عاشقی آئی
شب بلاتی ہے وحشتوں کو شمیمؔ
کیا قیامت کی چاندنی آئی