وہ اور کچھ نہیں اک طرز گفتگو کی تھی
وہ اور کچھ نہیں اک طرز گفتگو کی تھی
کہا یہ کس نے کبھی تیری آرزو کی تھی
کبھی بھی اپنی طبیعت نہ جنگجو کی تھی
وہاں انا کی نہیں بات آبرو کی تھی
جو زخم تھا تو ذرا خون ہی ٹپکتا تھا
جلن تمام ترے سوزن رفو کی تھی
ترا جمال تھا یا تھا طلسم ہوش ربا
للک عجیب سے مجھ میں بھی جستجو کی تھی
سمندروں کا وہ غصہ تھا یا زمیں کا عتاب
تمام شورش طوفاں مرے لہو کی تھی
گماں گماں ہے گماں ہی رہے تو اچھا ہے
صدائے قلقل مینا طلب سبو کی تھی
دہان زخم کہاں تھا شمیمؔ کیا معلوم
لہو اچھال کی شدت رگ گلو کی تھی