آج کا دن بھی گزر جائے گا

آج کا دن بھی گزر جائے گا
قافلہ لوٹ کے گھر جائے گا


راہ کٹتی ہی نہیں ہے اپنی
ساتھ کب تک یہ سفر جائے گا


زخم تازہ ہے تو دل دکھتا ہے
وقت کے ساتھ یہ بھر جائے گا


آزما گردش دوراں تو بھی
آئینہ اور سنور جائے گا


بھاگتے دوڑتے لمحوں کا سفر
کب اچانک ہی ٹھہر جائے گا


صبح کھلتا ہوا ہر پھول شمیمؔ
شام آئی تو بکھر جائے گا