شدت جذب میں جب عالم ہو بولتا ہے
شدت جذب میں جب عالم ہو بولتا ہے
مئے گل رنگ چھلکتی ہے سبو بولتا ہے
دل کا آئینہ کھلا ہو تو سکوت شب میں
میں بیاں کرتا ہوں خود کو کبھی تو بولتا ہے
جگمگا اٹھتا ہے دم بھر میں چمن زار خیال
چاند پہلو میں اتر کر لب جو بولتا ہے
موسم برف میں ہر رات گزرتی ہے مگر
گاہے گاہے سہی خوابیدہ لہو بولتا ہے
کیوں دریدہ ہے بدن کیا کہوں کس سے بولوں
میں کہوں یا نہ کہوں تار رفو بولتا ہے
دست قاتل کا ہنر لاکھ چھپائے لیکن
آب خنجر نہ سہی زخم گلو بولتا ہے
لذت سجدہ عطا ہونے سے پہلے ہی شمیمؔ
ہر بن مو سے مرا آب وضو بولتا ہے