شاعری

رات گئے زنداں میں جانے کس قیدی کا ماتم تھا

رات گئے زنداں میں جانے کس قیدی کا ماتم تھا اس کی بیڑیاں چپ چپ سی تھیں اور اجالا کم کم تھا جانے کیوں گفتار پہ اس کی وہم و گماں کے سائے تھے بات تو اس کی سیدھی سی تھی لہجہ کچھ کچھ مبہم تھا فصل بہاراں آئی بھی لیکن چاک گریباں ہو نہ سکے جانے دلوں پر کیا گزری تھی کون سا اس کا موسم ...

مزید پڑھیے

زلف سے نسبت ناکام لیے پھرتے ہیں

زلف سے نسبت ناکام لیے پھرتے ہیں دھوپ میں شائبۂ شام لیے پھرتے ہیں مردہ بستی ہے خبر کون کسی کی لے گا ساتھ میں دشمن و دشنام لیے پھرتے ہیں اب جنوں میں بھی تو بے ہوش نہیں دیوانے رو بہ صحرا ہیں در و بام لیے پھرتے ہیں سرد چپ چاپ زمینوں کی طرح ہی ہم لوگ اپنے اندر کوئی کہرام لیے پھرتے ...

مزید پڑھیے

شاخ سے پھول جدا کرتے ہو کیا کرتے ہو

شاخ سے پھول جدا کرتے ہو کیا کرتے ہو پھر بہاروں کی دعا کرتے ہو کیا کرتے ہو جب یہ معلوم ہے ہر وقت دعا دیتے ہیں ایسے لوگوں سے وفا کرتے ہو کیا کرتے ہو یہ جو تلوار ہے مظلوم کو بخشی جاتی تم تو ظالم کو عطا کرتے ہو کیا کرتے ہو اس طرح بات کا مفہوم بدل جائے گا لفظ سے لفظ جدا کرتے ہو کیا ...

مزید پڑھیے

پھول تو پھول ہیں کانٹوں پہ نظر ہے میری

پھول تو پھول ہیں کانٹوں پہ نظر ہے میری ایک مدت سے بہاروں پہ نظر ہے میری عکس در عکس نظاروں پہ نظر ہے میری ڈوبتے چاند ستاروں پہ نظر ہے میری دیکھنا یہ تھا مجھے کون سہارا دے گا تم نے سمجھا کہ سہاروں پہ نظر ہے میری کیا بھروسہ ہے چراغوں کا جلیں یا نہ جلیں جھلملاتے ہوئے تاروں پہ نظر ...

مزید پڑھیے

ہم وطن تھا آشنا تھا رات دن ملتا تھا وہ

ہم وطن تھا آشنا تھا رات دن ملتا تھا وہ اس میں کچھ تھی ایسی باتیں اجنبی لگتا تھا وہ اب تبسم ریز آنکھوں میں نمی دل داغ داغ باتوں باتوں میں کسی دن گر کبھی کھلتا تھا وہ معترف ہیں محفلیں وہ محفلوں کی جان تھا لوگ کیا جانیں کہاں کس حال میں رہتا تھا وہ آج اس کی خیریت بھی پوچھتا کوئی ...

مزید پڑھیے

ہم پہ وہ گردش حالات نہیں ہے پھر بھی

ہم پہ وہ گردش حالات نہیں ہے پھر بھی تم تو ملتے ہو ملاقات نہیں ہے پھر بھی آج بھی رکھتا ہے مدہوش وفاؤں کا خیال حالانکہ شدت جذبات نہیں ہے پھر بھی ایک مدت سے سنا ہے کہ زمانہ ہے خلاف غم کی روداد مری بات نہیں ہے پھر بھی شام سے میں بھی جلا رکھتا ہوں خوابوں کے چراغ میرے حصے میں کوئی رات ...

مزید پڑھیے

بہت عجیب ہے تعمیر کوئی گھر کرنا

بہت عجیب ہے تعمیر کوئی گھر کرنا رم غزال کو محدود بام و در کرنا نمو کا زور تھا خوشبو فضا میں لہرائی یہی تو ہے قفس رنگ میں بسر کرنا قرار موت ہے منزل پذیر قدموں کی مسافروں کو پھر آمادۂ سفر کرنا زمانہ یاد سے تیری لپٹ کے روئے گا مشاہدہ تو اے افتادۂ نظر کرنا میں جس سے کٹ کے جدا ہو ...

مزید پڑھیے

شمع امید جلاتے ہیں ہوا میں ہم لوگ

شمع امید جلاتے ہیں ہوا میں ہم لوگ دیکھ کیا لائے گزر‌‌ گاہ فنا میں ہم لوگ زخم در زخم سماں تازہ کیا کرتے ہیں گھول کر شوخی‌ مقتل کو حنا میں ہم لوگ لاکھ کوشش بھی کریں زندہ نہیں رہ سکتے ہم خیالی کی خطرناک وبا میں ہم لوگ سوچ لو کیا یہی جینا ہے جئے جانا ہے باندھتے ہیں کوئی تمہید قضا ...

مزید پڑھیے

پر خوف ظلمتوں سے ہمیں پھر نکالیے

پر خوف ظلمتوں سے ہمیں پھر نکالیے اب کے جو ہو سکے کئی سورج اچھالیے شامل کسی کا ہاتھ ہے میری اٹھان میں یہ بیل جو چڑھی تو کوئی آسرا لیے پتہ ہوں ایک شاخ سے ٹوٹا گرا ہوا پھرتی رہے گی جانے کہاں تک ہوا لیے انکار پیاس آگ لہو تن دریدگی کوفے سے ہو نصیب پلٹنا تو کیا لیے ہر بار اپنی چپ سے ...

مزید پڑھیے

تنگ و محدود بہت حسن نظر تھا پہلے

تنگ و محدود بہت حسن نظر تھا پہلے زلف و رخسار پہ موقوف ہنر تھا پہلے آنے جانے کا سروکار کہاں سے آیا کوئی جادہ نہ مسافر نہ سفر تھا پہلے اب بھی گردش میں مری دھوپ رہا کرتی ہے یہی سایہ جو ادھر ہے یہ ادھر تھا پہلے در و دیوار سے آزاد بیاباں پھر ہو اپنے شوریدہ سروں کا یہی گھر تھا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 39 سے 4657