ہم وطن تھا آشنا تھا رات دن ملتا تھا وہ

ہم وطن تھا آشنا تھا رات دن ملتا تھا وہ
اس میں کچھ تھی ایسی باتیں اجنبی لگتا تھا وہ


اب تبسم ریز آنکھوں میں نمی دل داغ داغ
باتوں باتوں میں کسی دن گر کبھی کھلتا تھا وہ


معترف ہیں محفلیں وہ محفلوں کی جان تھا
لوگ کیا جانیں کہاں کس حال میں رہتا تھا وہ


آج اس کی خیریت بھی پوچھتا کوئی نہیں
سو طرف سے ہاتھ اٹھتے راہ جب چلتا تھا وہ


شخصیت میں تھی نیازؔ اس کی عجب سی اک کشش
منہ سے اس کے پھول جھڑتے بات جب کرتا تھا وہ