ہم پہ وہ گردش حالات نہیں ہے پھر بھی

ہم پہ وہ گردش حالات نہیں ہے پھر بھی
تم تو ملتے ہو ملاقات نہیں ہے پھر بھی


آج بھی رکھتا ہے مدہوش وفاؤں کا خیال
حالانکہ شدت جذبات نہیں ہے پھر بھی


ایک مدت سے سنا ہے کہ زمانہ ہے خلاف
غم کی روداد مری بات نہیں ہے پھر بھی


شام سے میں بھی جلا رکھتا ہوں خوابوں کے چراغ
میرے حصے میں کوئی رات نہیں ہے پھر بھی


وہ مرے ساتھ ہواؤں کی طرح رہتا ہے
ساتھ ہو کر بھی مرے ساتھ نہیں ہے پھر بھی


دل میں آتا ہے کہ ہر حال میں واپس کر دوں
نذر احباب ہے خیرات نہیں ہے پھر بھی