اک آگ دیکھتا تھا اور جل رہا تھا میں
اک آگ دیکھتا تھا اور جل رہا تھا میں وہ شام آئی مگر ہاتھ مل رہا تھا میں یہ عمر کیسے گزاری بس اتنا یاد ہے اب اداس رات کے صحرا پہ چل رہا تھا میں بس ایک ضد تھی سو خود کو تباہ کرتا رہا نصیب اس کے کہ پھر بھی سنبھل رہا تھا میں بھری تھی اس نے رگ و پے میں برف کی ٹھنڈک سو ایک برف کی صورت پگھل ...