بے نیازیوں میں ہے حال یہ عطاؤں کا
بے نیازیوں میں ہے حال یہ عطاؤں کا
بٹ رہا ہے چیلوں میں رزق فاختاؤں کا
اس کا جسم بھی نکلا زخم زخم مجھ سا ہی
کھل گیا بھرم سارا ریشمی قباؤں کا
اپنی چار دیواری سے نہ جا سکیں باہر
حال یہ ہوا اپنی بے اثر دعاؤں کا
اب گھٹن ہی بہتر ہے اپنے آشیانوں کی
اعتبار مت کرنا آتشی ہواؤں کا
طور آگہی پر جب آپ ہی سوالی تھا
کیا جواب دیتا میں اپنی ہی صداؤں کا