طائر شوق گرفتار نہیں رہ سکتا

طائر شوق گرفتار نہیں رہ سکتا
یہ اسیر در و دیوار نہیں رہ سکتا


جبر حساس طبیعت پر اگر بوجھ بنے
حبس آباد میں فن کار نہیں رہ سکتا


ہم اگر سچ کو زبانوں پہ سجا کر رکھیں
پھر سفر زیست کا دشوار نہیں رہ سکتا


تو بھی میری ہی طرح ہے میں تجھے جانتا ہوں
دیر تک تو بھی وفادار نہیں رہ سکتا


رہنما بانٹتے پھرتے ہوں جہاں خواب رضاؔ
پھر وہاں کوئی بھی بے دار نہیں رہ سکتا