جو ایک بار ملا تھا مجھے جوانی میں
جو ایک بار ملا تھا مجھے جوانی میں
اب اس کا ذکر بہت ہے مری کہانی میں
بدن وہی ہے وہی خواہشوں کے پہناوے
نہیں ہے جوش مگر خون کی روانی میں
مجھے یقیں ہے پلٹنا ہے خالی ہاتھ مجھے
میں جال پھینک چکا ہوں اگرچہ پانی میں
وفا شعار تھے ہم لوگ زندگی ہم نے
گزار دی ہے ترے غم کی پاسبانی میں