شاعری

سرد راہوں میں بھٹکتی ہوئی شاموں کی طرح

سرد راہوں میں بھٹکتی ہوئی شاموں کی طرح میں ترے ساتھ چلی آئی ہوں رستوں کی طرح بس یہی دیکھ کے تجدید محبت کر لی رو پڑا تھا وہ مرے سامنے بچوں کی طرح گھر اداسی نے پڑاؤ ہے کیا مدت سے خواب کمروں میں سجا رکھے ہیں کتبوں کی طرح باغ ہجراں کی بہاروں کے بھی سبحان اللہ زخم پھولوں کی طرح پھول ...

مزید پڑھیے

آنکھ میری الٹ گئی ہوگی

آنکھ میری الٹ گئی ہوگی خواب کی عمر گھٹ گئی ہوگی مانگ سے خون بہہ رہا ہوگا خاک سے زلف اٹ گئی ہوگی روح اپنے سفر پہ نکلی جب تن سے مٹی چمٹ گئی ہوگی آخری بات درمیاں ہی تھی اور پھر کال کٹ گئی ہوگی یا زیادہ قریب تھا وہ شخص یا زمیں ہی سمٹ گئی ہوگی ہجر کی شب کو جب کوئی نہ ملا مجھ سے آ کر ...

مزید پڑھیے

لمحہ لمحہ سوچنے والی آنکھیں تھیں

لمحہ لمحہ سوچنے والی آنکھیں تھیں اس کی آنکھیں دیکھنے والی آنکھیں تھیں کئی دنوں سے ان کو ڈھونڈ رہی ہوں میں وہ جو مجھ کو ڈھونڈنے والی آنکھیں تھیں اس کو بھولوں بھی تو کیسے بھولوں میں ہنستے ہنستے رونے والی آنکھیں تھیں ادھر ادھر کب دیکھنے دیتی تھیں مجھ کو ہر پل مجھ کو ٹوکنے والی ...

مزید پڑھیے

اپنے قامت سے بڑا بنتا ہے

اپنے قامت سے بڑا بنتا ہے جس کو دیکھو وہ خدا بنتا ہے ہم تو جیسے بھی بنے بن گئے ہیں دیکھیے آپ کا کیا بنتا ہے وہ مرا تیرے سوا بنتا نہیں جو مرا تیرے سوا بنتا ہے سچ کہوں جتنا حسیں ہے نا تو یہ جہاں صدقہ ترا بنتا ہے اب تو میں اور کسی کی نہیں ہوں اب تو وہ شخص مرا بنتا ہے

مزید پڑھیے

موت بھی کچھ زندگی سے کم نہیں

موت بھی کچھ زندگی سے کم نہیں یہ اندھیرا روشنی سے کم نہیں تیری آنکھوں میں تپش ہے جون کی تیرا چہرہ جنوری سے کم نہیں میرا لہجہ ہے اگر پروین سا تیری غزلیں قاسمی سے کم نہیں انگلیاں ہم پر اٹھا کچھ سوچ کر یاد رکھ ہم بھی کسی سے کم نہیں تو مری خاطر گزرتا وقت ہے اور میں تیری گھڑی سے کم ...

مزید پڑھیے

جہیز کم تھا بہو آگ میں اتاری ہے

جہیز کم تھا بہو آگ میں اتاری ہے ہمارے گاؤں میں اب تک یہ رسم جاری ہے قدم اٹھاؤں گی تو خاک پر لہو ہوگا پڑی ہے پیر جو زنجیر مجھ سے بھاری ہے ردائے ہجر پہ جو درد کی کڑھائی کی تمہاری یاد میں یہ پہلی دست کاری ہے سکوت شام کا منظر ہے اور بجھی آنکھیں اداسی حد سے بڑھی ہے تو کتنی پیاری ...

مزید پڑھیے

نہیں معلوم جینے کا ہنر کیسا رکھا ہے

نہیں معلوم جینے کا ہنر کیسا رکھا ہے ہمیں حالات نے جیسے رکھا زندہ رکھا ہے مری پاگل طبیعت کا ہے کوئی پیر نہ سر نہیں دریا ملا تو آنکھ میں صحرا رکھا ہے تمہیں جس سمت سے آنا ہوا بے خوف آنا تمہارے واسطے چاروں طرف رستہ رکھا ہے مرے جیسی اداسی شہر میں کس کو ملی ہے مرا جیسا کسی نے کب بجھا ...

مزید پڑھیے

کفن جب سی رہے تھے لوگ میرا (ردیف .. ے)

کفن جب سی رہے تھے لوگ میرا مجھے لگتا تھا لہنگا بن رہا ہے ہمارے سانس ہوں گے دکھ کا سالن ہمارا دل جو چولہا بن رہا ہے تری موجودگی ہے بے معانی ترا ہونا نہ ہونا بن رہا ہے مری ہر رات نیندوں سے خفا ہے مرا ہر خواب کتبہ بن رہا ہے وہ اپنی قدر اب کھونے لگا ہے وہ اب تولے سے ماشہ بن رہا ...

مزید پڑھیے

عدو سے شکوۂ قید و قفس کیا

عدو سے شکوۂ قید و قفس کیا تمہارے بعد جینے کی ہوس کیا ہم اپنی دسترس میں بھی نہیں ہیں زمانے پر ہماری دسترس کیا کئی دن سے یہ دل کیوں مضطرب ہے نہیں چلتا اب اس پہ اپنا بس کیا ہمارے پاؤں میں چھالے پڑے ہیں تو پھر اس میں خطائے خار و خس کیا جہاں خالی جگہ ہے بیٹھ جاؤ عقیدت میں یہ فکر پیش ...

مزید پڑھیے

دو ہی کردار تھے کہانی میں

دو ہی کردار تھے کہانی میں دونوں ہی مر گئے جوانی میں لوگ لاشیں نکال پائے بس عشق ڈوبا ہوا تھا پانی میں زندگی جل چکی تھی لکڑی سی راکھ بس بچ گئی نشانی میں موڑ آیا تھا میں مڑا ہی نہیں ہو گئی بھول زندگانی میں تھا سچنؔ شخص اک مرے جیسا اور وہ میں تھا بد گمانی میں

مزید پڑھیے
صفحہ 1121 سے 4657