جہیز کم تھا بہو آگ میں اتاری ہے
جہیز کم تھا بہو آگ میں اتاری ہے
ہمارے گاؤں میں اب تک یہ رسم جاری ہے
قدم اٹھاؤں گی تو خاک پر لہو ہوگا
پڑی ہے پیر جو زنجیر مجھ سے بھاری ہے
ردائے ہجر پہ جو درد کی کڑھائی کی
تمہاری یاد میں یہ پہلی دست کاری ہے
سکوت شام کا منظر ہے اور بجھی آنکھیں
اداسی حد سے بڑھی ہے تو کتنی پیاری ہے
یہ میرا دل نہیں اجڑا ہوا مکاں ہے کوئی
یہ میری آنکھ نہیں زخموں کی کیاری ہے