پاکستان

پاکستان کا سال 2021 : کیا کھویا اور کیا پایا

پاکستان

اقوام متحدہ کے ذیلی  ادارے یو این ڈی پی  نے پاکستان کو فلاح و بہبود کے اعتبار سے  154   نمبر پر درجہ بند کیا ہوا ہے۔ یہ درجہ بندی 2020 دسمبر میں ہوئی تھی۔ اب تک اس سال کی درجہ بندی جاری نہیں ہوئی۔ لیکن پاکستان کو اس درجہ بندی میں بہتری لانےکے لیے خاصی محنت کرنا ہوگی۔ کیوں کہ یہ پاکستان کے کمزور پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ اگر پاکستان ایک فلاحی اسلامی مملکت کا خواہاں ہے تو  عوام کی فلاح   تو  اسے اپنی ترجیح بنانا ہی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان دیگر جگہوں پر بھی کام کرنا ہوگا جہاں کمزوریاں نظر آ رہی ہیں۔

مزید پڑھیے

وطن میں بڑھتی بے راہ روی میں میڈیا کا کردار: یہ رنگ ِ آسماں دیکھا نہ جائے

Indecent content

اب یہاں ایڈیٹر صاحبان اور مالکان یہ رونا روتے ہیں کہ  عوام یہی کچھ پڑھتے ہیں ، یعنی قارئین کے پر زور اصرار  پر  میگزینز،  ڈائجسٹ،  اخبارات،  ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس  نے  نام ور ادا کارہ کے اخلاق باختہ تصاویر نشر کیے ہیں  اور پھر دس بارہ اسکینڈلز بھی لگائے ہیں ، اور  خدا نے چاہا تو یوں ہی ان کے قارئین و ناظرین  کی تعداد میں برکت پڑتی رہے گی۔

مزید پڑھیے

آئرش کنسٹبلری ایکٹ: ہماری پولیس کے نظام میں موجود استبدادی خون کی بنیاد

پولیس

    ہمارے ہاں پولیس کے نظام کی وجہ تسمیہ کھنگالنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ذہنیت آج بھی پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے جس کے تحت پولیس کا قیام ہوا۔ اسی طرح عوام کے اجتماعی ذہن پر بھی پولیس کے خلاف رد عمل کی نفسیات، اس سے مقابلہ کرنے کی نفسیات، اسے اپنا دشمن سمجھنے  اور  خوف زدہ رکھنے کی نفسیات  پوری طرح  نافذ العمل ہیں ۔ یہی دو  مخالف قوتیں ہیں جس کے تحت جب بھی پولیس اور عوام آمنے سامنے آتے ہیں تو ہمیں ایسے دل خراش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو دونوں طرف ہمارے ہی لوگ ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے

کیوں کہ ہم ان سے بہتر مسلمان تھے: تارڑ صاحب کی سقوط ڈھاکہ سے منسلک تحریر

سقوط ڈھاکہ

 ان کے خزانے میں پاکستان سے دوگنے  ذخائر ہیں، وہ اپنے ائیر پورٹس، کارپوریشنیں، بجلی  گھر، موٹر وے  اور کار خانے غیر ملکی سرمایہ  داروں کے ہاتھوں فروخت کرنے کی نا کام کوشش نہیں کر  رہے۔ البتہ وہ ایک میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کا تقریباً ہر ایک   ممبر  پارلیمنٹ اتنا بے  چارہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شمولیت کے لیے سائیکل، رکشے یا کسی کھٹارہ کار میں آتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو پیدل بھی آتا ہے۔

مزید پڑھیے

نظم یا مشرقی پاکستان کا نوحہ : میں کیا بتاؤں کسے سناؤں ، عجب انوکھا سا حادثہ ہے

سقوط ڈھاکہ

سولہ دسمبر 1971 کو جو سانحہ ہم پر گزرا، اس کو بہت سے ناموں سے پکارا گیا ، یعنی سقوطِ ڈھاکہ ، شکستِ آرزو ، خوابِ شکستہ ،وغیرہ ۔ اس اشک بار داستان پر بہت سوں نے قلم اٹھایا ، مگر اس موضوع پر اس نظم سے بہتر شاید کچھ نہیں لکھا گیا۔ یہ مشرقی پاکستان میں موجود کسی ایسے محب وطن پاکستانی کے قلم سے نکلا ہوا نوحہ ہے، جس نے لمحوں میں اپنے وطن کو پرایا ہوتے دیکھا۔

مزید پڑھیے

سولہ دسمبر 1971 : سقوط ڈھاکہ تاریخ کے آئینے میں

سقوط ڈھاکہ

جنرل جیکب نے کاغذات پاکستانی حکام کے حوالے کیے۔ جنرل فرمان نے کہا: یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ کمان کیا چیز ہے،ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔ جنرل جیکب نے کہا:مجھے اس میں رد و بدل کا اختیار نہیں۔ انڈین ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل کھیرا نے لقمہ دیا:یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے،جہاں تک آپ کا تعلق ہے ، آپ صرف ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ جنرل فرمان نے کاغذات جنرل نیازی کے آگے سرکا دیے۔ جنرل نیازی، جو ساری گفتگو سن رہے تھے،چپ رہے۔ اس خاموشی کو ان کی مکمل رضا سمجھا گیا۔

مزید پڑھیے

وہ ہم سفر تھا    :سقوط ڈھاکہ پر نصیر ترابی کے آنسو

سقوط ڈھاکہ

تاریخ نیا موڑ لے رہی تھی، نیا باب کھل رہا تھا۔    آہ!! ! " کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن"!           اس بات کی خبر رات گیارہ بجے دفتر میں بیٹھے نصیر ترابی کو پہنچی۔ یہ ان کے لیے خبر نہیں تھی، سانحہ تھا۔  اب جو حقیقت ہو چکا تھا۔ ان  کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو   گئے۔ انہوں نے قلم  اٹھایا اور صفحہ قرطاس پر جذبات منتقل کر ڈالے

مزید پڑھیے

رحمت اللعالمین ﷺ کے نام پر بے رحمی کے مناظر دیکھتا سیال کوٹ

انتہا پسندی

          جب مَیں یہ سب مناظر دیکھتا ہوں تو مسلمانوں کی زبوں  حالی کے وہ سب قصے ، وہ سب گلے میری قوم کے  مذاق بن جانے کے شکوے ، میرے سب نوحے  ، وہیں تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔  مجھے میرے سوالات کا جواب مل جاتا ہے، مجھے اقبال کا جواب  شکوہ پڑھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔

مزید پڑھیے

لسانی و عصبیتی نفرتوں اور وفاق کی بے اعتنائی میں سلگتا عروس البلاد

کراچی

بڑے پیارے پیارے محبت کرنے والے لوگ اس شہر میں رہتے تھے کہ جن کا اب نام بھی لیتے ہوئے حلق میں آنسو اٹکتے ہیں۔ یہ شہر نہ تھا، شہرِ محبت تھا۔ مگر پھر جانے کیا ہوا، شہر کو شہر ہی نگل گیا۔ وہ مانوس چہرے، وہ محلے وہ بھلے لوگ، ہر بار لوٹ کے جانے پر نظر نہ آتے تھے۔ شہر والے بدل گئے یا شہر بدل گیا۔ بد امنی، سیاست، جرائم، آلودگی، نئی بنتی ہوئی آبادیاں، کراچی کو کھا گئیں۔

مزید پڑھیے
صفحہ 18 سے 21