کیوں کہ ہم ان سے بہتر مسلمان تھے

 بنگلہ  دیشی وفد کی سبھی  خواتین    رُو  پہلی کرنوں والے چمکتے منظر والی  شیشےکی کھڑکی سے لگ کر بیٹھی ہوئی  تھیں اور ان میں سے دوتو  ایسی تھیں جنہوں نے نہایت اہتمام سے اپنے سر کو ڈھانپ رکھا تھا۔اس کے با  وجود ، کہ ہم اُنہیں کوئی مناسب مسلمان نہیں سمجھتے تھے۔  اب تو خیر   انہیں کیا پروا،  کہ ہم انہیں کیا سمجھتے ہیں؟

  یہ تب کی بات ہے جب پاکستان،  پاکستان تھا اور منبر  و  مسجد سے اور سیاست کی سٹیج سے یہی اعلان کیا جاتا تھا کہ یہ پاکستان قیامت تک قائم رہے گا۔  بس یہ الگ بات کہ وہ قیامت بس 24 برس کے بعد ہی آ  گئی تھی ۔  

تو یہ تب کی بات ہے جب ہم انہیں مناسب مسلمان نہیں سمجھتے تھے۔ وہ ہارمونیم پر اپنے دریاؤں کے گیت گاتے تھے اور اللہ بارش دے کی بجائے اللہ میگھ دے پکارتے تھے جو سرا سر نظریہ  پاکستان کے خلاف تھا۔   اپنےجنگلوں میں رہنے والے جانوروں اور تالابوں میں اُچھلنے والی مچھلیوں سے پیار کرتے تھے۔  رقص کرتے تھے  ۔ وہ کیسے مسلمان تھے؟

اوروہ  نذرل  (قاضی نذر الاسلام)  کے نغمےالاپتے تھے جو کلکتہ میں رہتا تھا۔  اقبال ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا ، جو ایک مرتبہ پھر نظریہ پاکستان کے شدید  منافی عمل تھا۔  یہاں تک  کہ اقبال کی نسبت  ایک  ہندو،  رابندر ناتھ  ٹیگور کی شاعری کو  سمجھ لیتے تھے کو  اور کچھ تو ایسے تھے جو اس کی شاعری کو پسند  بھی کرتے تھے۔

 اور ان کی خواتین ساڑھیاں باندھتی تھیں جو  ایک با پردہ لباس نہ تھااور اُن کی اُردو کمزور تھی اور انگریزی کا لہجہ بہت خراب تھا اور اُن کی رنگت نیم سیاہ تھی اور قد چھوٹے تھے۔ ہماری مسلمانی کا معیار  تو  ان سے ہر اعتبار  سے  جدا تھا۔  ایک اچھا مسلمان صرف شلوار قمیض پہنتا ہے، موسیقی کو حرام سمجھتا ہے، دراز قد اور کھلی رنگت کا ہوتا ہے چنانچہ وہ ہمارے معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔

اس کے با وجود کہ مسلم لیگ صرف بنگال میں جیت سکی تھی ، پنجاب یاسرحد میں نہیں ۔ صرف بنگال ہی تو  وہ واحد صوبہ تھا ، کہ جہاں مسلم لیگ کا اپنا وزیر اعلیٰ بن سکا تھا۔ کون  سا  وزیرِ اعلیٰ؟ اچھا وہ  حُسین شہید سہر  وردی؟  وہی جسے  بڑے صاحب نے  پہلے وزارتِ عظمیٰ سے تذلیل کر کے بر طرف کیا ، اور پھر جلا وطنی ملی تو بیروت میں پر اسرار طریقے سے قتل کر دیا گیا؟

  اور  ہاں ، یاد آیا ، تحریک پاکستان کا آغاز بھی تو وہیں سے ہوا تھا ۔ مسلم لیگ وہاں قائم ہوئی  تھی۔   قرار دادِ لاہور وہیں کے مولوی اے کے فضل حق نے پیش کی تھی ۔لیکن وہ ہمارے مسلمانی اور حب الوطنی کے معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔

 تو انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہم بھی ان کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔

 آج سیاسیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ وہ اپنے ملکی معاملات  ہم سے کئی گنا بہتر طور پر چلا رہے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے بڑھتی ہوئی آبادی کو بھی کنٹرول کر لیا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ بنگالی بچے پیدا کرنے سے باز نہیں آ سکتا۔ ان کی معیشت تو  بہتر ہے  ہی  اور اُن کا بینکنگ سسٹم  تیسری دنیا میں ایک مثال کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔

 ان کے خزانے میں پاکستان سے دوگنے  ذخائر ہیں، وہ اپنے ائیر پورٹس، کارپوریشنیں، بجلی  گھر، موٹر وے  اور کار خانے غیر ملکی سرمایہ  داروں کے ہاتھوں فروخت کرنے کی نا کام کوشش نہیں کر  رہے۔ البتہ وہ ایک میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کا تقریباً ہر ایک   ممبر  پارلیمنٹ اتنا بے  چارہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شمولیت کے لیے سائیکل، رکشے یا کسی کھٹارہ کار میں آتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو پیدل بھی آتا ہے۔

 اگر چہ ہم اُنہیں مناسب مسلمان نہیں سمجھتے تھے ، لیکن بنگلہ  دیش کے وفد کی خواتین میں سے دو ایسی تھیں جو اپنے سر کو مکمل شرعی انداز میں  ڈھانپے ہوئے تھیں اور  اور پاکستانی وفد کی خواتین ننگے سر تھی ۔

کیوں کہ ہم بہتر مسلمان تھے۔

تارڑ صاحب کے سفر نامے ، نیپال نگری سے ایک اقتباس۔

متعلقہ عنوانات