پاکستان اور رواں سال: ایک جائزہ

پاکستان 2021 میں کہاں اچھا رہا کہاں  بہتری کی ضرورت تھی؟ آئیے مختلف عالمی رپورٹس میں دیکھتے ہیں!

مصنف: فرقان احمد

دسمبر کی سرد شاموں کے بعد اب ایک اور ہجر  ہمیں در پیش ہے۔ 2021 اپنی تمام تر یادیں لیے ، رخصتی کے لیے تیار ہے۔   کئی احباب  تھے جن کے بغیر ہمیں سال نو دیکھنا ہوگا، کئی خواہشیں ہیں، خواب ہیں، امیدیں ہیں، دعائیں ہیں جن کے ساتھ ہمیں سال نو دیکھنا  ہے۔ مگر  اس سب سے پہلے ہمیں  بطور قوم اپنی کارکردگی کا بھی جائزہ لینا  ہے۔ ایسا اس لیے کے اگلے سال ہم بہتر نظر آئیں۔

سب سے پہلے ذکر ہے  میاں گوگل کا۔ کچھ ہی دنوں پہلے اس  نے ہمیں بتایا کہ  پاکستانی اس پر سب سے  زیادہ  کرکٹ دیکھتے نظر آئیے۔  دسمبر کے مہینے میں ہی گوگل نے پاکستان میں سب سے زیادہ گوگل پر   ڈھونڈے جانے والے موضوعات کا ڈیٹا جاری کیا۔ اس کے مطابق پاکستانیوں نے سب سے زیادہ کرکٹ دیکھا، نیٹفلکس سیریز سکوئیڈ گیم دیکھی اور ایپس کی کیٹاگری میں فیس بک پر نظر آئے۔

اس سال تو بھئی پاکستان نے اپنی  جدت اپنانے کی رینکنگ بھی بہتر کی۔ 2021 کی اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹلکچول پروپرٹی آرگنائزیشن نے اپنی  رپورٹ برائے ایجادات  میں پاکستان کو ننانوے  نمبر پر درجہ بند کیا۔  پاکستان 2020 کی رپورٹ میں 107 پر درجہ بند تھا، تاہم اس سال ترقی کر کے ننانوے  درجے پر آ گیا ہے۔  یہ تو بہت خوش آئند ہے۔ لیکن  اس بہتر کارکردگی کے باوجود اس سال پاکستانی کچھ افسردہ افسردہ نظر آئے۔ جانے یہ وبا کی وجہ سے غیر یقینی کے حالات کا اثر تھا کہ مہنگائی اور دیگر پریشانیوں کا۔ اقوام متحدہ کی خوشی کی عالمی رپورٹ میں پاکستان 38 درجے سرک  کر چھیاسٹویں  سے ایک سو پانچویں درجے پر آ گیا۔ سماجی و سیاسی رہنماؤں کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

آئیے اب ایک اور پہلو کو دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں کاروبار کرنے کے موافق حالات میں بھی بہتری نظر آئی۔

 بھئی یہ تو ایک اور اچھی خبر ہے۔ 2021 میں ورلڈ بینک کی جاری کردہ رینکنگ  میں پاکستان نے پچھلے سال کی طرح اس سال بھی بہتری دکھائی۔ اس سال پاکستان  108ویں درجے پر پہنچ گیا۔ پاکستان کی یہ ترقی  136ویں درجے سے ہے۔ یہ تو خاصی ترقی ہے بھئی۔   یہی ورلڈ بنک یہ مژدہ بھی سنا رہا ہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ پانچ اعشاریہ تین فیصد اس سال رہے گی۔ یہ پچھلے سال کی نسبت  بہتر ہے جب  پورے پانچ فیصد  تھی۔   بہر حال پاکستان کو اپنی زراعت اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری پر  توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ان دونوں کے اعداد و شمار اچھے نظر نہیں آ رہے  ۔  اس کے ساتھ ساتھ اشیا کی قیمتوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔ سچی بات ہے بھئی  11 فیصد کی شرح سے مہنگائی برداشت نہیں ہوتی۔

اگر پاکستان کی مشکلات کی مزید بات کریں تو آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی  ایف (FATF)  درد سر بنے   رہے۔ ہم غریب کیا ہوئے، ساری دنیا ہی بدمعاش ہو گئی۔  ایف اے ٹی ایف میں ہمیں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ کو روکنے کے لیے ستائیس اہداف حاصل کرنے کو کہا گیا تھا۔ چھبیس ہم پورے کر لائے۔ صاحب، وہ  پھر بھی خوش نہ ہوئے۔  ہمیں گرے لسٹ میں ہی رکھا۔ بلکہ الٹا مزید مطالبات تھما دیے۔ نا انصافی ہے بھئی۔ ادھر آئی ایم ایف کو دیکھیے!  اسٹیٹ بینک کا ادائیگیوں کا توازن  خراب ہواتھا۔ صرف چھے ارب ڈالر مانگے تھے۔ ایسی کڑی شرائط، ایسی کڑی شرائط، کہ خدا کی پناہ۔  اب کچھ آئی ایم ایف کے مطالبات ہیں، کچھ کرم فرماؤں کی کارفرمائی ہے اور ہماری کھال ہے۔  نیا سال مشکلات میں کمی کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ ابھی تو منی بجٹ کا  شور ہے۔ یہ سب ہوتا ہے جب ممالک سفارتی طور پر کمزور ہو جائیں۔ اس سے یاد آیا کہ    2021 کی ہینلی پاسپورٹ رینکنگ کے مطابق پاکستان کا پاسپورٹ چوتھا کمزور ترین ہے۔ بہت لمحہ فکریہ ہے۔ امید ہے کہ کارفرما   اپنے خارجہ امور میں بہتری لائیں گے۔ 

            آخر میں بات ہو جائے پاکستان میں فلاح و بہبود کی۔ اقوام متحدہ کے ذیلی  ادارے یو این ڈی پی  نے پاکستان کو فلاح و بہبود کے اعتبار سے  154   نمبر پر درجہ بند کیا ہوا ہے۔ یہ درجہ بندی 2020 دسمبر میں ہوئی تھی۔ اب تک اس سال کی درجہ بندی جاری نہیں ہوئی۔ لیکن پاکستان کو اس درجہ بندی میں بہتری لانےکے لیے خاصی محنت کرنا ہوگی۔ کیوں کہ یہ پاکستان کے کمزور پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ اگر پاکستان ایک فلاحی اسلامی مملکت کا خواہاں ہے تو  عوام کی فلاح   تو  اسے اپنی ترجیح بنانا ہی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان دیگر جگہوں پر بھی کام کرنا ہوگا جہاں کمزوریاں نظر آ رہی ہیں۔ تب ہی سال نو بھی ایک خوش آئند   صبح لیے خوشیوں بھرا ثابت ہوگا۔