ہمارا میڈیا ہمیں کیا دکھانا چاہ رہا ہے؟

کچھ دن ہونے کو آئے  ، ہمیں کسی فیس بک گروپ میں ایک انٹرویو کی مثل کچھ سوالات  کا جواب دینے کا موقع ملا ۔ یعنی  مختلف معمولاتِ زندگی میں ہماری پسند،  ہمارا پسندیدہ ڈرامہ ، پسندیدہ ڈرامے کے پسندیدہ بول ، پسندیدہ اداکار اور اداکارہ ، فیملی  میگزینز ،    پسندیدہ گلو کار ،  فلمز ، شعراء وغیرہ وغیرہ۔ اب  ہم نے جو بھی جواب وہاں دیے ، وہ تو ہم صیغۂ راز میں رکھے دیتے ہیں کہ کہیں سند نہ رکھ لیے جائیں کہ  وقتِ ضرورت کام آئیں ۔  یہ صفحات اس لیے تو کالے نہیں کیے جا رہے ۔

ہوا یوں کہ یونہی ہمارے ذہن میں یہ خیال کوند سا گیا کہ ہمارے یہاں ایسے کتنے رسالے ہیں ، کتنے میگزینز ہیں ، کتنے ٹی وی ڈرامے ہیں  ، جن کا ہم کھل کر شرفاء کی محفل  میں تذکرہ چھیڑ سکیں ۔   جب کہیں کوئی ایسا  نام  ، ایسا بُھولا بِسرا نام ذہن میں آئے تو یہ بات یقینی ہے ، کہ اس کا "ماضی بہت ہی قریب"سے کوئی واسطہ نہیں ۔

 پچھلے کچھ عرصے میں  نشر ہونے والے بیش تر   ڈراموں کو دیکھ لیجیے ۔ کہیں عارضی محرم سے معاشقے ،  کسی کی زوجہ کو وہاں سے چھڑوا کر اپنے نکاح میں لینے کی داستان ، کہیں گھر سے بھاگ کر ولی کے بغیر ہی نکاح ، کہیں نکاح بھی نہیں ، مگر محبت یہ بھی کہلا رہی ہے!!!   کہیں بھائی صاحب بیٹھے ہیں اپنی زندگی دھڑلّے سے برباد کرنے ، کہ عاشقِ نا کام  کا اور کامیاب دھندہ کون سا ہے؟    اور منٹو صاحب کے تو گویا یہ میڈیا مالکان یقیناً بیعت کنندہ ہیں ، کہ ہر قدرے مذہبی شخص یہاں کالا چور ہے جب کہ ہر کالا چور یہاں پارسا۔

کہیں کہیں آج بھی اگر کچھ بہتر موضوعات کو نشر کیا جا رہا  ہے تو بھی آپ  گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کے  کیوں کر دیکھ سکتے ہیں ، کہ اس چینل کو ہمارے باوا جان تو سپانسر نہیں کر رہے ؟

 سو  یہاں اشتہار جن سرمایہ کاروں کی ایما پر   نشر کیے   جا  رہے ہیں ، ان کی صنعتوں کی کامیابی کا نسخہ   صنفِ  نازک   کی  صورت میں تجویز کِیا گیا ہے ۔ اور  یہ امر تو  واضح ہے کہ اکیلی صنفِ نازک کیا کریں گی ، کہ نازک ہے بہت  کام  ۔۔۔۔(آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری کا )  لہٰذا مل بانٹ کر  تشہیر کی جاتی ہے مصنوعات کی ۔

فلموں کا تو خیر معاملہ ہی الگ ہے ۔  جب کہ  سنسر بورڈ اپنی تنخواہ و مراعات   بلا کم و کاست وصولے جا رہا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ  جب فلم میں ہیرو  للن میاں  اور ولن کوئی بھی میاں   خوب دادِ عیش دے رہے ہیں تو گانوں میں آخر وہی سب کیوں نہ آئے گا؟؟؟ اور یوں  بھی  ، اب گیت نگار ساحر لدھیانوی ، شکیل بدایونی ، قتیل شفائی ، کیفی اعظمی تو ہیں نہیں کہ کسی  گیت کی شاعری ہی  سننے کے قابل  ہو۔

ڈائجسٹس ، میگزینز ، ویب سائٹس ، سب میں یہی سر ورق پر نظر آ ئے گا ، اور جو سرورق پر ہو وہی  اندرونی صفحات میں بھی تو ہو گا ناں!!! اب یہاں ایڈیٹر صاحبان اور مالکان یہ رونا روتے ہیں کہ  عوام یہی کچھ پڑھتے ہیں ، یعنی قارئین کے پر زور اصرار  پر  میگزینز،  ڈائجسٹ،  اخبارات،  ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس  نے  نام ور ادا کارہ کے اخلاق باختہ تصاویر نشر کیے ہیں  اور پھر دس بارہ اسکینڈلز بھی لگائے ہیں ، اور  خدا نے چاہا تو یوں ہی ان کے قارئین و ناظرین  کی تعداد میں برکت پڑتی رہے گی۔

اب یہاں ہم  عجیب تذبذب میں  مبتلا ہیں ۔ یعنی اداروں کے مالکان مجبور ہیں کہ عوام کی ڈیمانڈ کے مطابق  مواد نشر کریں یا عوام مجبور ہیں کہ وہی پڑھیں یا  دیکھیں جو میسر ہے؟ نیز اس سب میں تناسب راست اور تناسب معکوس کیا  کردار ادا کریں گے ؟ یہ سوال تو سمجھیے صاحب گویا ہمارے گٹھنوں میں ہی بیٹھ گیا ہے۔

بڑے بوڑھوں سے سنتے ہیں کہ ماضی میں تین مصنفین کے ناولز سب سے زیادہ پڑھے  اور خریدے جاتے تھے۔ ابن صفی صاحب(یعنی اسرار احمد ) ، نسیم حجازی صاحب (یعنی شریف حسین)  اور رضیہ بٹ ۔

 اب ابن صفی صاحب تو خالصتاً اس جذبے کے تحت لکھتے تھے کہ اس زمانے میں مبینہ طور پر رائج جنسیات پر مشتمل ادب کو دندان شکن جواب دیا جائے ، اور اس بات کا اظہار انہوں نے بار ہا  کیا ۔

اسرار احمد عرف ابن صفی صاحب لکھتے ہیں : پھر ایک دن یہ ہوا کہ ایک ادبی نشست میں کسی بزرگ کہا۔" اردو میں صرف جنسی افسانوں کی مارکیٹ ہے۔اس کے علاوہ اور کچھ نہیں بکتا۔"

میں نے کہا کہ  "یہ درست ہے لیکن ابھی تک کسی نے بھی جنسی لٹریچر کے سیلاب کو روکنے کی کوشش  ہی نہیں کی۔"

کسی طرف سے آواز آئی۔ "  یہ ناممکن ہے ، جب تک کہ  کوئی متبادل چیز مقابلے میں نہ لائی جائے۔۔۔یہ قطعی طور پر نا ممکن ہے۔"

"متبادل چیز ؟" مَیں نے سوچا اور پھر وہی آٹھ سال کا بچہ سامنے آ  کھڑا ہوا، جس نے طلسم ہوشربا کی ساتوں جلدیں  چاٹ ڈالی تھیں اور یہ بھی دیکھا تھا کہ اسی نوے  سال کے بوڑھے بھی بچوں ہی کی طرح طلسم ہوشربا میں گم ہو جاتے ہیں ۔

مَیں نے کہا، " اچھی بات ہے ، مَیں دیکھوں گا کہ اس سلسلے میں مَیں کیا کر سکتا ہوں" یہ انیس سو  اکاون کے اواخر کی بات ہے ۔  جب افسانوی ادب (بشمول ناول ) میں افسانویت کے علاوہ اور سب کچھ بہ کثرت پایا  جاتا تھا اور ناول میں "ناولٹی" مفقود تھی۔

مَیں نے اسی  "ناولٹی" پر زور دیتے ہوئے جاسوسی ناولز لکھنے کا فیصلہ کیا۔

 

 سو ابن صفی صاحب  نے  اس سب مرچ مسالہ  کو اپنے  250 کے لگ بھگ تمام ناولز  سے کوسوں دور رکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بلا مبالغہ دسیوں  لاکھ قارئین  ترس کر رہ گئے کہ غزالہ اور فریدی ، حمید اور شہناز،  یا عمران اور جولیا /روشی کا کوئی رومان آمیز منظر کبھی قلم بند ہو مگر  ابن صفی صاحب  نے اس معاملے میں  ایسے قارئین کو  ہمیشہ مایوس ہی کیا۔

(واضح رہے کہ یہاں ابن صفی صاحب کی  رقم کردہ عمران سیریز یا فریدی حمید سیریز کی بات ہو رہی ہے ، ان کی وفات کے بعد ان کرداروں پر ہاتھ صاف کرنے والوں نے کہِیں  کسی رنگینئِ خیال کو اجاگر کیا ہو تو کمپنی اس کی ذمہ دار نہ ہو گی۔)

نسیم حجازی صاحب کے ناولز ایک الگ جہت کے تھے ۔ خیر ، ان میں  بھی  نسوانی کردار موجود تھے ، جذبات بھی رہے ہوں گے مگر مجال ہے کہ کوئی اخلاق باختہ یا قابلِ اعتراض منظر سامنے آیا ہو۔ محبت البتہ وہاں  موجودتھی۔

رہ گئیں رضیہ بٹ صاحبہ ، تو ان کے یہاں سب کچھ  ملتا تھا جو آج کے ٹی وی ڈراموں یا فلموں میں ملتا ہے ۔

مگر کبھی پوچھ کر دیکھیے ، ابن صفی کے قارئین کی تعداد نسیم حجازی اور رضیہ بٹ کے مجموعی قارئین سے کم از کم دس گنا زیادہ تھی  (تصحیح فرما لیجیے ، "تھی" نہیں ، بلکہ "ہے"۔)

جب کہ وہ  اردو  سِرّی  (یعنی جاسوسی)ادب  کے سر خیل تھے ، اور حالت یہ ہے کہ کسی ڈراؤنی فلم  ، جاسوسی فلم یا جیمز بانڈ کی کسی کارستانی کو بد ترین "گرم مسالہ" کے تڑکے کے بغیر نشر کرنا ہالی ووڈ ، بالی  ووڈ یا  اپنی لالی ووڈ کے بس کی بات نہیں ۔

یہ تو رہی ماضی کی بات ، کہ قارئین کس قسم کا ادب زیادہ پسند کرتےہیں یا کرتے رہے  ہیں۔ گزشتہ چند  برسوں  سے کچھ  ترکی زبان کے ڈرامے اردو میں نشر کیے جا رہے ہیں ، یا اردو سب ٹائٹلز کے ساتھ دکھائے جا رہے ہیں ،

گو کہ ان میں   محبت ہے ، رومان بھی ہے ، مگرجو مناظر اور تصورات اپنے یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ڈراموں  میں دکھائے جاتے ہیں ، کیا ان کا عشر عشیر بھی ارطغرل ، باربروسا ، سلجوقوں کا عروج  ،  کرولوس عثمان وغیرہ میں ملتا ہے؟ مگر اس سب کے با وجود عوام میں ان ترک ڈراموں کی مقبولیت کی کوئی حد نہیں ۔ کیا اس سب سے ان اداروں کے مالکان کے دعووں کی قلعی نہیں کھل گئی کہ اس سب  نمک مرچ کے بنا عوام کچھ  دیکھتی ہی  نہیں۔

سنسر بورڈ بھی با  کمال ہے ۔ یعنی" مالک" فلم اس بنیاد پر سنسر کی دی جائے گی کہ اس میں چند طاقت ور طبقوں پر تنقید کی جا رہی ہے ، جب کہ   "خدا کے لیے" چلتی رہے گی  ، اگر چہ کہ اس میں بھارتی اداکار ،  نصیر الدین شاہ ، ایک عالمِ دین کا روپ دھارے واضح طور پر عدالت میں یہ فتویٰ دیتے نظر آتے ہیں کہ  "مسلمان  لڑکی  کا  اہل کتاب میں  نکاح جائز تو ہے لیکن ایسا نہ ہو تو  بہتر ہے ۔" غور کیا جائے تو  بنیادی طور پر یہ جملہ اس فلم کا مرکزی خیال ہے۔

کیوں نصیر الدین شاہ صاحب  ، کیوں شعیب منصور   بھائی صاحب؟؟؟ یہ کس لائن میں آ گئے آپ؟  حضور آپ کو یہ کام کس نے سونپ دیا کہ  چودہ سو سال سے مرتب کردہ فقہ اور شریعت کو  ، نیز قرآن ، حدیث ،  اجماعِ صحابہ ، اجماعِ امت ، با قاعدہ قیاس کو بھی بائی پاس کرتے ہوئے از سرِ نو اسے ترتیب دینے کا بیڑہ اٹھا لیں ؟

اب دیکھا جائے تو یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟

در اصل یہ سب اس لیے ہے کہ کار فرماؤں نے تعمیر و ترقی کے لیے یہی سب   تجویز کیا ہے ، ترقی کی شاہ راہ پر یہی سنگِ میل بتائے گئے  ہیں ، جبھی تو ہر فرسنگ کے فاصلے پر ، ہر بڑی یا چھوٹی شاہ راہ پہ نی اون سائنز کے حامل بِل بورڈز یہی منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

ضرورت جانے کس امر کی ہے ، مگر جو ہو رہا ہے ، وہ دیکھا نہیں جا رہا ۔ یعنی ایسی تعمیر اور ترقی کے آخر کیا فضائل ہیں جو واضح نظر بھی نہیں آتے۔ احمد فراز بھی تذبذب ہی میں رہے کہ

یہ میرے ساتھ کیسی روشنی ہے؟

کہ مجھ سے راستہ دیکھا نہ جائے

اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ روشنی  نہیں ، جلتی ، سلگتی ہوئی آگ  ہے، کہ ابن صفی نے کہا تھا

کبھی دیکھا تھا ایسا بھی چراغاں ؟

نشیمن کا دھواں ہے اور ہم ہیں

کرَم ہے یہ بھی میرِ کارواں کا
غبارِ کارواں ہے ، اور ہم ہیں

جب کہ وجدان زبانِ حال سے یہ کہتا ہے کہ جو ہو  رہا ہے ، یہ تو کچھ بھی نہیں ، جو ہونے جا رہا ہے  اس کا سوچو ، کہ ابھی تو محبت کا آغاز ہے ، انجامِ کار تک پہنچنے سے پہلے کیا کچھ دکھایا جائے گا ، دیکھ لیا  جائے گا ۔

یوں بھی ،   سیف الدین سیف صاحب  یوں ہی تو نہیں  پکارتےرہے کہ

اِس تہی دامنی کے عالم میں

جو مِلا ہے ، یہی بہت کچھ ہے

آنے والے دنوں کی ظلمت میں

آج کی روشنی بہت کچھ ہے

اور
مَیں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا ، کہ اس دورِ پُر فِتن میں یہی نسخہ کار گر معلوم ہوتا ہے ۔

متعلقہ عنوانات